تاروں نے کیسا رات کا جنگل جِلا دیا

منظر بدل بدل کے مِرا دن بنا دیا

 

میں جس کی آنکھ سے یہ جہاں دیکھتی رہی

جنت کے پاس اْس نے مِرا گھر سجا دیا

 

احساس ہے بہت تْو مِرے پاس ہے بہت

اس سلسلے نے مْجھ کو مجھی سے مِلا دیا

 

پتھر کو پوجتی رہی، مٹی کو، آگ کو

عورت نے مرد کو بھی کوئی بت بنا دیا

 

میں اس لیے بھی نیند کو ترسی ہوں عمر بھر

تْو سو سکے سکون سے، تجھ کو سْلا دیا

 

اک خواب نور نور میں لپٹا ہوا تھا وہ

حیرت نے میری آنکھ کا پردہ ہلا دیا

 

تمثیل اشک اشک دعا مانگتی رہی

آجا کہ انتظار میں دل بھی گنوا دیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے