یاد ہے اْس گھڑی شام تیزی سے

گرتی چلی جا رہی تھی درختوں کے پیچھے

اجالے کے ریزے

لڑھکنے لگے تھے سیہ غار کی سمت

ہم چْن رہے تھے

خموشی کی بکھری ہوئی کرچیاں

وقت کی ایک لمبی مسافت پہ رکھی تھی

یادوں کی گٹھڑی

ٹھٹھرتے ہوئے دن کا ٹکڑا

جو بے وجہ آنکھوں میں چبھنے لگا تھا

ندی کے کنارے ٹہلتی ہوئی گرمجوشی

الجھتی سلجھتی ہوئی چند شامیں۔۔۔۔

زمانوں کی زنجیر ہلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔

اور مراہاتھ بڑھنے لگا بندگٹھڑی کی جانب۔۔۔۔

تبھی دور اڑتے پرندے کی آواز سے دفع

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے