بلوچستان میں معروف معنوں میں اولین سیاسی پارٹی 1920میں قائم ہوئی۔ اس کا نام ینگ بلوچ تھا۔

                 انگریز ہندوستان پہ قابض تھا۔

                یاد رہے کہ ”ینگ بلوچ“ نامی سیاسی پارٹی کی تشکیل سے قبل ایسا بالکل نہ تھا کہ بلوچستان میں کوئی شعور نہ تھا، یا یہاں روشن فکری نہ تھی۔ یہ بہت غلط تصور ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان پر تگیزیوں، مغلوں، ترکمنوں کے خلاف اپنی سرزمین کو بچانے کی جنگیں لڑتا رہا۔ اس میں زبردست کسان تحریکیں چلیں اور بہت ارتقائی ایجادات ہوتی رہیں۔

                 بلوچستان انیسویں صدی کے پہلے نصف سے انگریز کے خلاف مزاہمتی جنگ لڑ رہا تھا۔ اور یہ بڑی زبردست ہیروئی جنگیں تھیں۔ خان قلات میر محراب خان 1839میں پوری ریاستی کنفیڈریشن کے ساتھ انگریز سے لڑا۔ شکست کھائی اور شہادت اپنے نصیب کردی۔ اُس کے بعد یہ جنگ متحدہ جنگ نہ رہی بلکہ یہ قومی جنگیں الگ الگ قبائل اپنے طور پر لڑتی رہیں۔ کبھی اپنے سردار کی قیادت میں اور کبھی بغیر سردار کے کوئی فرد یا افراد کا مجموعہ ان جنگوں کی قیادت کرتے رہے۔

                یعنی اس دور میں بلوچ کے اندر مری قبیلے میں ایک عبوری سیاسی پارٹی ”مظلوم پارٹی“ کے نام سے تو بنی تھی۔ مگر بلوچستان سطح کی کوئی سیاسی پارٹی موجود نہ تھی۔ ڈھیلے ڈھالے کنفیڈریشن میں خان ِ کلات اور ریاست کے کنفیڈریٹنگ یونٹس میں وہاں کے موروثی حکمرانوں کی شخصی حکومتیں قائم تھیں۔

                اُس وقت کے بلوچستان کی اپنی داخلی حالت یہ تھی کہموٹے موٹے انداز میں بلوچستان دو حصوں میں موجود تھا۔بلوچوں کا ایک حصہ ریاستِ کلات میں تھا، اور بقیہ حصہ ریاست سے باہر تھا۔ اور اگر مزید تفصیل سے دیکھنا ہو تو اُس زمانے کا بلوچستان چھ حصوں میں منقسم تھا:۔

                بلوچستان کا ایک حصہ حکومت ِایران سے وابستہ تھاجس میں سیستان،زاہدان،  خواش اور بمپور وغیرہ  شامل تھے۔

                دوسرا بلوچ علاقہ ریگ اور گرم سیل کے نام پر افغانستان کے ماتحت تھا۔

                تیسرا حصہ برٹش بلوچستان کے نام سے تھا  جس میں شمال کا پشتون علاقہ اور  اجارہ پر لیے ہوئے بولان، کوئٹہ، نوشکی اور نصیر آباد کے علاقے بھی شامل تھے۔مری اور بگٹی قبائلی علاقہ بھی بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں اسی برٹش بلوچستان میں شامل تھا۔

                بلوچستان کا چوتھا حصہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا تھا جسے ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ساتھ نتھی کیا گیا تھااور وہ وہاں کے شہری حقوق سے پورے طور پر مستفید ہورہا تھا۔

                بلوچستان کا پانچواں حصہ سندھ کا تھا۔

                بلوچستان کا چھٹا علاقہ وہ تھا جو سراوان بشمول کچھی، جھالاوان، مکران، خاران اور لسبیلہ کے خود مختار قبائلی علاقوں اور جاگیروں کا مجموعہ تھا، جو کہ ایک قومی کنفیڈریشن کی صورت میں خانِ قلات کے زیر اقتدار تھا۔ یہ ریاستِ قلات کے بلوچ کنفیڈریشن کے نام سے مشہور تھا۔

                 مندرجہ بالا چھ علاقوں کے علاوہ پنجاب کے متعدد اضلاع  یوپی اور دہلی اور صوبہ سرحد وغیرہ میں بھی بلوچوں کی کافی آبادی تھی۔

                یہ چھ یا سات علاقے  ایک دوسرے بالکل الگ تھلگ کیے گئے تھے۔ اِن کی کوئی مشترکہ منڈی اور مشترک سوِک سنٹر نہ تھا۔ نہ ہی ان کی کوئی مشترک لیڈر شپ تھی۔

                                 ریاستِ کلات بہت ہی ابتدائی اور نامکمل و ناتراشیدہ ادارے رکھتی تھی۔ مگر بہر حال وہاں ایک دربار جیسی چیز اور اُس کے ارد گرد موہوم ومبہم ادارے موجود تھے۔ لہذا آزاد قبائل کی بہ نسبت کسی سیاسی پارٹی کے بننے کے بھی امکانات یہیں زیادہ تھے۔

                آئیے اس ریاست میں اولین سیاسی پارٹی بننے کے وقت کے سیاسی سماجی حالات دیکھتے ہیں۔

                ریاست کلات میں کسی بڑے قبیلے کو اختلاف کرنے کی خاص ضرورت نہ تھی۔ اس لیے کہ وہاں قبائل کے سرداروں کو اپنے داخلی نظام کی پوری آزادی حاصل تھی۔

                ہاں کبھی کبھی چھوٹی موٹی چپقلش  ضرور پیدا ہوتی تھی۔ کبھی کوئی سردار تجاوز کرتا، کبھی کوئی ریاستی اہلکار زیادہ ہشیاری دکھاتا۔ مگر سردار، نواب، جام اور خان عموماً ایک پیج پہ ہی رہے۔

                مگراصل معاملہ عوام کو درپیش تھا۔ سارا ظلم، زور اور استحصال کسان رعایا کا ہوتا تھا۔ حکمران طبقات کو شاذونادر ہی استادی کی ضرورت پڑتی تھی۔عموماً براہِ راست اور بغیر چھپائے یہ ظلم ہوتا تھا۔

                ریاستِ کلات میں عوام سے بد ترین بے گار لینے کا دستور تھا۔گھاس و چارہ کو کسی کھیت سے احاطہئ اصطبل تک پہنچانے کی خدمت بار ی باری ہر ایک کاشتکار کو بلا معاوضہ انجام دینی پڑتی تھی۔اسی طرح کسانوں سے سڑکوں پر پانی چھڑکاؤ کا کام بھی بیگار کے طور پر کرایا جاتا تھا۔  اگر کسی افسر کا دورہ کسی علاقے میں ہوتا تو عمارات اور احاطہ جاتِ سرکاری اور سڑکوں کی صفائی و درستی کا کام بھی بطور ِبیگار کسانوں سے ہی کرایا جاتا۔اسی طرح جب کبھی کوئی انگریز حاکم حدود ِریاست میں مدعو کیا جاتا تھا تو اس کو خوش کرنے کے لیے تزئین و آرائش کا سارا کام بیگار پر کرایا جاتا۔ اور اس قسم کے بیگار میں سکولوں کے بچوں کو خاص طور پر حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

                انگریز حاکم کی جہاں دعوت ہوتی، تواُس دن خوشامد کے بطور سڑک کے دونوں اطراف حفاظتی آدمی کھڑے کئے جاتے تھے۔بیس بیس میل تک  سب کے سب بیگارپہ ہوتے، اور انہیں صبح سے شام تک بھوکا اور پیاسا رکھ کر سڑکوں پر خوار خراب کیا جاتا۔

                اسی طرح سرکاری عمارات کی تعمیر میں اجرتی مزدوروں کے دوش بدوش بیگارمیں لیے ہوئے کسانوں کو بھی بھوکا اور پیاسا رہ کر مفت اور بلا معاوضہ کام کرنا پڑتا  تھا۔

                اگر بیگار کے طور پر کام لینے کی یہ ضرورت کاشت کے موقعہ پر آ پڑتی تو سرکار کو کوئی پرواہ نہ ہوتی کہ بے گار میں پکڑنے سے ان کی کاشتکاری کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ اُس پر طرہ یہ کہ اگر اس طرح سے کسی کاشتکارکی فصل نابود ہوجاتی تب بھی مالیہ میں کوئی تخفیف نہیں کی جاتی۔

                اندھیر نگری دیکھیے کہ ایسے کاریزوں پربھی مالیہ وصول ہوتا تھاجو کب کا منہدم ہوچکے ہوتے۔

                اسی طرح ریاست نے موسم خزاں میں باغات کی برگ ریزی پر بھی محصول لگا رکھا تھا۔

 نادار اور مفلس کسان جن کے کاریز منہدم اور زمین ویران ہوتی توان کو رات کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔ مگر ان دربہ در لوگوں کو بھی مالیہ کے لیے مظالم کا شکار کیاجاتا تھا۔ اس لیے ایسے مظلوموں کو سینکڑوں کی تعداد میں پکڑ کر زیر نگرانی بٹھا دیا جاتا۔یہ طریقہ صرف وصولی مالیہ کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ فوجداری مقدمات کا جرمانہ وصول کرنے میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔

                حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جرمانہ یا مالیہ کا روپیہ جس کے ذمہ ہوتا صرف اُس کی اپنی ذات اس کی ادائیگی کا ذمہ دار ہوتی ۔مگر یہاں تو اُس کے سارے عزیز و اقارت کو گرفتار کیا جاتا۔ اگلی مصیبت یہ کہ اُن گرفتار رشدگان کو کھانا سرکار کی طرف سے نہیں دیا جاتا تھا۔ وہ غریب اپنے پلے سے بھی کچھ نہیں کھاسکتے تھے۔ لوگ ترس کھا کر خیرات کے بطور انہیں روکھی سوکھی دے دیتے۔ یا پھر پہرے والے سپاہی اپنی بچی کھچی روٹی دیتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکام ان گرفتار شدگان سے جب اور جہاں چاہتے بے گار کرواتے۔

                غریب کسانوں پہ مالیہ معاف کرنے، یا کچھ کم کرنے کی بات تو چھوڑیے، وہ انہیں مہلت بھی نہ دیتے کہ محنت مزدوری کر کے ادائیگی کرتے بہت بار ایسا ہوتا کہ کسان کے گھر کی چیزیں نیلام کر کے وصولی کی جاتی تھی۔

                 خان کے نائب بہت راشی، بددیانت اور بد مزاج ہوتے تھے۔ کام چوری اُن کی واحد صفت ہوچکی تھی۔اس حد تک کہ کاشتکاروں کی فصل کٹ چکنے اور صاف ہونے کے بعد  بھی 6-7 ماہ تک بٹائی نہ ہونے کی وجہ سے وہیں میدان میں پڑی رہتی۔ کئی بار تو یہ غلہ بارش سے بھیگ کر اور سیلاب میں بہہ کر ضائع ہوجاتاتھا۔  نتیجہ یہ کہ ساری ریاست کی اقتصادی حالت بالکل تباہی کے قریب تھی۔ صرف سردار اور ملازمت پیشہ لوگ آرام سے تھے۔ بقیہ آبادی تو مظلومیت کا نمونہ بن چکی تھی۔

                کسانوں کوتباہ کرنے کی ایک اور صورت یہ تھی کہ ان کی پیداوار یعنی آلو۔ پیاز۔ گھی،پشم وغیرہ کے باہر جانے پر سخت پابندی تھی۔ریاست کو خطرہ تھاکہ تجارت عام ہو نے سے باہر کے لوگ  ریاست میں داخل ہوکر اس کی اندرونی حالت جانچ سکیں گے۔ اور یوں ریاست کے انسانیت سوز مظالم کا راز فاش ہوجائے گا۔

تعلیم کا حال بھی بہت خراب تھا۔ریاست کلات کے پورے کنفیڈریشن میں صرف مستنگ کا واحد مڈل سکول تھا جہاں سارا دن سکول کے لڑکے شاہی باغ میں مالی کا کام کرتے تھے۔ جسے زرعی تعلیم کا نام دیا گیا تھا۔ (1)۔

                اس واحد مڈل سکول کے علاوہ پوری ریاست میں محض بارہ پرائمری سکول تھے۔ تعلیم کی اس حوصلہ شکنی کا سبب سردار بھی تھے جو اپنے قبیلے سے کسی دوسرے فرد کے ابھرنے سے خوفزدہ تھے۔ اس طرح غیر ملکی اہلکار بھی شامل تھے تاکہ ملازمتوں پہ ان کی اجارہ داری سلامت رہے۔

                ملکی تعلیمیافتہ لوگو ں کو ملازمتوں میں کوئی موقع نہیں دیا جاتاتھا۔کیونکہ حکمران طبقہ خوفزدہ تھا کہ یہ تعلیم یافتہ لوگ دفاتر میں آکر ریاست کی قابل ِ اعتراض کاروائیوں کو جان سکیں گے۔ اور اس کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں گے۔ اس لیے دفاتر میں اکثر غیر ملکی لوگوں کو ملازمتوں میں لیا جاتا تھا۔ اور سارا دفتری اقتدار غیر ملکی عنصر کے قبضہ میں تھا۔

                عدالتوں میں رشوت ستانی کا دور دورہ تھا۔ معمولی محرر بھی جب تک غریب اہلِ مقدمات سے رشوت نہ لیتے ان سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے تھے۔ وہ سائلوں کے ساتھ سخت کلامی اور فحش گوئی سے حتیٰ کہ ماں بہن اور بیوی کی گالیاں دیکر پیش آتے تھے اور اس طرح سے سائلوں کو مجبور ہونا پڑتا کہ جناب منشی صاحب کو روپیہ آٹھ آنہ چائے پانی کے بطور دیکر اپنا کام نکال لیتے۔

                معمولی معمولی مقدمات ابتدائی تفتیش میں ہی سالہا سال تک معلق رکھے جاتے تھے۔ تفتیش مکمل ہوچکنے کے بعد چھ سات ماہ یہ مقدمات جرگہ میں پیش ہونے کے لیے یونہی پڑے پڑے رہتے۔ چونکہ جرگے کا فیصلہ آنے کے بعد پھرحتمی فیصلے کے لیے یہ فائل وزیراعظم کے پاس جاتی اس لیے آٹھ دس ماہ مزید لگتے۔

                اگر بعد از وقت داد رسی کا فیصلہ ہو بھی جاتا تو اس پر عملدرآمد کرانے کا نظام ہی  موجودنہ تھا۔

                وہاں کسی اخلاقی مجرم کو قید کی سزا نہیں دی جاتی تھی۔ خزانے کو بھرنے کے لیے مجرموں کو صرف نقد جرمانہ کی سزا دی جائے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرائم بڑھ گئے۔کسی کو سنگین سزا کا خطرہ نہیں رہا۔ اگر آج ایک چور کو پچاس روپے جرمانہ کی سزا ہوتی تو وہ دوسرے دن دوسری جگہ سے چوری کر کے جرمانہ کی رقم بھی پورا کرتا اور اپنی جیب بھی بھرتا۔

                ریاست کلات کے حکام عوام کے ٹیکسوں پہ زبردست عیاشیاں کرتے تھے۔ جس طرح آج ملک میں ادیبوں شاعروں کے میلے ہوتے ہیں، اسی  طرح اُس وقت ہندوستان میں مختلف مقامات پہ ”ہارس شو“ منعقد ہوتے تھے۔ اس غریب  اور پسماندہ ریاست نے بھی گھوڑوں کاایک پورا گلہ پال رکھا تھا۔ جن پر وہ ہزاروں روپے خرچ کر کے اپنا شوق پور ا کرتے تھے۔

                اس گلے کی خاطر ایک سو اسی روپے ماہوار کا ایک ویٹرنری سرجن‘ ساٹھ روپے ماہوار کا ایک سپیشل کلرک اور پچاس روپے ماہوار کا ایک سپیشل جمعدار او رپانچسو روپیہ ماہوار خرچ میں دوسرا عملہ از قسم سائس، چابک سوار وغیرہ مقرر کیا گیاتھا۔ جن میں ایک ایک چابک سوار پچاس پچاس روپیہ ماہوار پاتا تھاجو کہ ریاست کے سینئر اہلکاران کی تنخواہوں سے بھی زیادہ تھا۔

                حکومت ِ کلات نے غیر ملکی لوگوں کے ریاست میں آنے جانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ مقصد  یہ تھا کہ بیدار مغز لوگ ریاست کے اندر عوام کی ابتر حالت نہ دیکھ پائیں۔ ریاست کو یہ خطرہ بھی تھا کہ آنے جانے والے کہیں  عوام کو بیدار نہ کریں۔

                کہتے ہیں نا کہ ملتان فقیروں سے خالی نہیں۔ قلات ریاست بھی حساس اور باشعوری لوگوں سے خالی نہ تھا۔ ان میں عبدالعزیز کرد، ملک فیض محمد یوسف زئی، محمد اعظم شاہوانڑیں، اور بختیار خان محمد شہی قابل ِ ذکر ہیں۔

                بلوچستان میں سیاست کی تنظیم کاری کی دھندلی دھندلی شروعات 1920 کے اواخر میں ہونے لگی تھی۔میر عبدالعزیز کرد بلوچ سیاست کی اِس  مدھم تنظیم کاری کا اولین سرچشمہ ہے۔یہ کمال شخص اگلی نصف صدی تک بلوچستان کی قومی عوامی تحریک کا  بانی رہا۔

                چنانچہ یہ لوگ خفیہ طور پر مل بیٹھنے لگے۔ بدحالی و پسماندگی پہ باتیں کرنے لگے۔ متبادل سوچنے لگے۔ انہوں نے جمہور کے منتخب نمائندگان کی ایک اسمبلی قائم کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ان کے خیال میں ایک وزیراعظم اور باضابطہ کابینہ  ہو۔وہ چاہتے تھے کہ اس کابینہ کو اسمبلی کے سامنے جواب دِہ ٹھہرایا جائے۔

                اِن کی یہ تجویز بھی تھی کہ ریاست میں ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن مقررکرکے تمام خرابیوں کی اصلاح کی جائے۔ ظلم و استبداد (جو مطلق العنانی کی پیداوار ہیں) کا خاتمہ کرکے رعایا کی تمام شکایات کو ہمیشہ کے لیے دور کیا جائے۔

                انہی پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے سیاسی نظریات ومطالبات کو آگے بڑھانے کے لیے 1920میں ”ینگ بلوچ“ نامی سیاسی تنظیم قائم کی۔

حوالہ جات

۔1۔ نصیر، گل خان۔ ادبار کی چھاؤں میں۔ 2014۔ گل خان نصیر چیئر۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ۔ صفحہ23

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے