”ابنارمل عورت ہو تم۔جاہل ہو کوئی عقل سمجھ بوجھ نہیں ہے تمہیں۔جیسے دنیا کہے وہی کرنے کا دل کرتا ہے۔ میں آدمہ ہوں مرد ہوں باہر دنیا میں چلتا ہوں مجھے زیادہ پتہ ہے۔تم کیا جانو ایک نوکری کیا کرتی ہو مجھ پر احسان جتاتی ہو۔ نہ کرو نوکری جو ہوگا میرے پاس وہی کھلاؤں گا۔نہیں ہوگا تو کہاں سے کھلاؤں گا۔جاتا ہوں جو تمہارا نصیب لاتا ہوں۔ اتنا نہیں جو تم لوگوں کو دے سکوں“۔

                روز وہی باتیں سننے کو ملتیں تھیں۔ پر شیلا کبھی لڑپڑتی کبھی صبر کر لیتی، کبھی آنسو بہاتی کبھی چلاتی۔ زندگی کے بیس سال ایسے گزر گئے کبھی کسی کو دل کا حال نہیں سنا سکی۔ ماں باپ نے جلدی شادی کر دی۔

                شادی کی پہلی رات سے ہی اُسے زاہد نے بتا دیا کہ وہ مرد ہے۔ افضل ہے اور شیلا عورت ہے کم تر ہے۔ اور بیس سال کے اس عرصے میں زاہد مرد ہونے کا غرور ظاہر کرتا۔ شہلا نا سمجھ تھی، سبھی شوہر ایسے ہی ہوتے ہیں، افضل صحیح سوچنے والے۔ بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھے والے کبھی کچھ نہ دلانے والے۔ شادی کے تین چار سال گزرے۔ اچانک اخبار میں ایک اشتہار تھا ضرورت لیڈی ٹیچر۔ شیلا پڑھی لکھی مگر گھر کے کاموں میں سارا دن مصروف رہتی اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی۔ سوچتی رہتی کبھی تو حالات بہتر ہوں گے۔ اخبار میں اشتہار دیکھتے ہی زاہد کو فون کیا۔ نوکری کے لیے اپلائی کرنا چاہتی ہوں۔ واپس آتے ہوئے فارم لیتے آنا۔

                ”دماغ خراب ہے تمہارا گھر عزت کے ساتھ بیٹھی ہو اچھا نہیں لگ رہا۔ خامخواہ ذلیل ہوگی۔ ستر آدمی ہوں گے۔دیکھیں گے نہیں“۔

                 زاہد نوکری کا کیا پتا ہو جائے حالات بہتر ہوں گے۔

                کیا حالات؟کھانا نہیں کھارہی ہو کیا۔ سکون سے چار دیواری میں بیٹھی ہو اور کیا عیاشی کرنی ہے“۔

                شیلا حسرت سے اُسکا منہ تکنے لگی۔ کپڑوں کی ضرورت نہیں کیا۔ شادی کے بعد عورت مر جاتی ہے۔ اسکی کوئی خوشی ضرورت نہیں۔ شادی کے بعد کبھی زاہدنے میک اپ ضرورت کا سامان کچھ نہیں دلایا۔ کبھی عید آتی تھی شادیاں آتیں۔ اسے یہی جواب ملتا کہاں سے لاؤں۔ وہی ہے جووہ لاتا۔اپنے موٹر سائیکل پٹرول میں لگا دیتا ہے۔

                زاہد اپلائی تو کرو اگر نوکری ہوگی تو اچھا ہے نہ ہوئی تو خیر۔ا ور گالیاں اور کوسنے کھانے کے بعد نوکری کے لیے اپلائی کیا گیا اور خدا خدا کر کے اسکی نوکری ہوگی۔ نوکری ہوئی گھر میں کچھ خوشحالی آئی۔ شیلا پیسے بچا کر کبھی اپنے کپڑے لیتی کبھی بچوں کے کبھی گھر کی چیزیں بناتی جب ہی پیسہ جمع کرتی۔ زاہد غصہ کرتا سیر پر چلو۔میرے پاس پیسے ہوتے تو میں کبھی تم سے نہ مانگتا۔ تم پیسہ اکٹھا کرتی ہو۔ احساس نہیں تمہیں بالکل۔ایسا بھی کرتے کرتے بیس سال گزر گئے نہ جمع کیا نہ کرنے دیا۔ کماؤ لاؤ کھاؤ مگر آواز اونچی نہیں عورت ہو کم تر ہو کم عقل والی ہو جاہل ہو۔

                شیلا سوچتی یہ کیسا مرد ہے عورت کو دبا کر رکھنا کہاں کی مردانگی ہے۔ بچے جوان ہوگئے پر کہتے ہیں نہ جب بچوں کے سامنے ماں کو بے عزت کیا جائے تو بچے نہ ماں کی عزت کرتے ہیں نہ باپ کی۔ انکے بچوں نے بھی یہی کیا نہ ماں کی عزت نہ باپ کی عزت۔

                آج بھی شیلا دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے کی اجازت مانگے بغیر کھانے کی دعوت کی ہاں کر آئی اور جانے کا کہا تو گالیوں کی برسات شروع۔ شیلا نے دوست کو فون کیا اور منع کر دیا گیا اور پہلی بار اسنے اپنی قریبی دوست کو بتایا کہ وہ نہیں جانے دیتا۔اسکی دوست اسکے گھر آئی۔ اس نے کہا یہ جان کر تمہارے ساتھ ایسا کرتا ہے۔ ساری زندگی تم نے کچھ نہیں مانگا۔ ہمیشہ گھر کی اسکی پوری کی اور اوپر سے نخرے بھی اٹھائے۔ اور یہ شک کرتا ہے کہ یہ تم سے کم ہے۔ پر اپنا احساس کمتری چھپانے کیلئے تمہیں باندی بنایا ہوا ہے۔اور شیلا کی دوست کی باتیں زاہد نے سن لیں۔ اور گھر میں خوب تماشا لگا۔ شیلا ایک مجرم بنی سب سنتی رہی اور ہنستی رہی۔ پہلے لڑتی تھی تو چپ لگ گئی اور بیس سال بعد تو پتھر دل بن گئی اولاد جوان ہوگئی۔ گھر میں سب موجود تھا لیکن ایک شیلا کے پاس کچھ نہیں تھا نہ مان گھر میں عزت نہ کوئی کندھا جس پر سر رکھ کر رویا جائے۔

                ایک تنہائی میں جی رہی تھی۔ اور اسکا دل روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا۔اسکا ساتھ چھوڑنے کے لیے آگے آگے بھاگتا جا رہا تھا۔ شوہر کی باتیں اسکے دل کو ختم کرنے لگیں۔ پر جب اولاد بھی باپ کی طرح اسکے سر پر سوار ہوئی تو اسکا دل اسکے قدوں میں گر پڑا اور رونے لگے بس اب مجھے آزاد کرو خود بھی سکون کرو۔ دل اور چیختا،جلاتا بس کرو ایسا نہ کرو۔ وہ دل کی نہ سنتی دل کی سنتی تو گئی سالوں تک ایک پتھر دل انسان کے ساتھ نہ جی پاتی۔

                اسی سوچ میں گم بیٹھی تھی کہ اچانک زاہد کمرے میں داخل ہوا۔

                کس کی سوچ میں گم ہو؟ کون یاد آرہا ہے؟

                شیلا نے اُسے غور سے دیکھا اور مسکرا دی۔

                زاہد اسکا مسکرانا ہی برداشت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ مسکراتے ہوئے بھی حسین لگتی تھی اور زاہد کو یہ ہضم نہیں ہوتا ہے۔

                کیوں شیلا دال میں کچھ کالا ہے لگتا ہے کوئی گڑبڑ ہے۔

                شیلا بولی تم نہ زندہ رہنے دیتے ہو نہ مرنے دیتے ہو۔ آخر چاہتے کیا ہو مسکراؤں تو کوئی یاد آرہا ہے چپ رہوں تو کس کا دکھ ہے تمہیں۔بتاؤ کہاں جاؤں کیا کروں۔

                تم کیسی عورت ہو تم چاہتی نہیں ہو تمہارے ساتھ میں بیٹھو سکوں تو تمہیں پسند ہی نہیں ہے۔ ہر وقت طنز کرتی رہتی ہو بکواس کرتی ہو جاہل عورت ہو اور زاہد کی مردانگی شروع۔

                شیلا کے ساتھ ایسا شروع دن سے ہو رہا تھا وہ جوان تھی لڑ پڑتی تھی مقابلہ کرتی تھی اب ہمت جواب دے گئی تو چپ چاپ درد بھری آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہتی۔جوان بیٹا اندر کمرے سے باپ کی آواز سنتے ہی باہر آیا اور چیخ کر بولا ابا کیا ہے کیوں زور زور سے بول رہے ہیں آپ دونوں کو ہمارا سکون بر باد کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ اماں ہر وقت بیٹھی ہو رونامچائے، کاش اولڈ ہوم ہو تا  تم دونوں کو ہم وہیں چھوڑ آتے۔ اور زاہد کی مردانگی بیٹے کے سامنے ہوا ہوگی۔ بیٹا چیختا چلاتا گھر سے باہر نکل گیا۔بیٹے کے باہر نکلتے زاہد پھر شیلا کی طرف مڑا خوش ہو جوان بیٹے کو پریشان کر کے اور شیلا غم و غصہ کی کیفیت سے زاہد کو تکتی رہی اور سوچتی رہی کاش اسکی زبان بند ہو جائے جیتا رہے پر بول نہ سکے۔ کاش اسکو اللہ ہدایت دے یہ اب اس عمر میں ٹھیک ہو جائے پر دعائیں بھی تو سب اسی وقت کیلئے نہیں ہوتیں کچھ دعاؤں کی قبولیت کا وقت بعد میں ہوتا ہے۔

                رات ہوگئی زاہد بار بار دروازے کو تکتا رہا بیٹا صبح سے نکلا گھر نہیں پہنچا دوسرے بیٹے کو ساتھ لیا زاہد نے اور بڑے بیٹے کو ڈھونڈنے نکلا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے صبح نے انگڑائی لی پر بیٹا نہ ملا۔تھکے ہارے گھر لوٹے شیلا دروازے کے ساتھ بے چینی سے ٹہل رہی تھی باپ بیٹا بڑے بھائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے سر جھکائے کندھے لٹکائے آئے اور ایک اچٹتی سی نگاہ شیلا پر ڈال کر صحن میں بجھی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ زاہد تھانے میں رپٹ کروائیں شیلا زاہد کے قریب آکر بیٹھی۔

                چھوٹا بیٹا بولا”اماں چپ کر۔ تم عورت ذات کو کیا پتہ چلتا ہے۔ہم مرد ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کیا کرنا اور کیا کیا نہیں“۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے