سراب راہگزر، ہم سفر بریدہ خیال

دیار خواب کہاں کھو گئے دمیدہ خیال

 

بھلا وہ خلق جئے کیسے بن کے سرو سہی

ہوئے نصیب جسے پیشوا خمیدہ خیال

 

جہان معتبراں اور ایک گردن خکم

تمام خاک کیے اپنے سر کشیدہ خیال

 

اذیتوں کی وہ لذت رچی فضاؤں میں

قرار جان لگے درد آفریدہ خیال

 

ہمارے خواب ہماری طرح نہ تھے یکسو

کبھی رمیدہ نظر اور کبھی پریدہ خیال

 

نہیں تھے لعل و جواہر مگر نہیں تھے خزف

مرے خیال، مرے زندگی چشیدہ خیال

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے