مار  دیا مرے بچوں کو

اک آواز اٹھانے  پر

مار دیا مرے بچوں کو

میں نے کوکھ میں سینچا تھا

دھڑکن کے پیمانوں سے

اسکی پیاس بجھائی تھی

آنکھوں میں تھے خواب دھرے

انگلی تھام چلایا تھا

اجلی سب کرنیں لیکر

سندر چھاتی سینچی تھی

سورج سے گرمی لے کر

پوروں پوروں رکھی تھی

چیخ کو اپنی گوندھا تھا

پھر اس سانس میں بوئی تھی

شوق کی سبز ہر اک کونپل

اس کے صبر میں رکھی تھی

اگلے پچھلے خداؤں سے

میں نے منت مانگی تھی

اس کے پیدا ہونے پر

میں نے بھوگ چڑھایا تھا

درد کی شاخ تلے پل پل

سارا سوزاٹھایا تھا

پھر اک کورے سانچے میں

پیار سے اسکو گوندھا تھا

اپنے منہ کے نوالوں  سے

پیٹ کی آگ  کو سینچا تھا

راتوں کولوری دے کر

پورا ہجر کمایا تھا

اسکی روشن آنکھوں میں

گرمئی  دل کا سوداتھا

سانسوں کے پیمانے میں

صبح کی خوشبوبہتی تھی

 

وہ جو حبس کو ڈھانے کے

ہر اندازمیں پورا تھا

اک آزاد ہوا کا ساز

اس کی سانس میں پلتا تھا

اک تعمیر کی خواہش سی

اس کے صبر میں جاگی تھی

تیرے حلوے مانڈوں سے

اک روٹی ہی مانگی تھی

میری تعبیروں کا کیا

میرے خواب کی وقعت کیا

اک آواز اٹھانے پر

مٹی میں ہی گاڑ دیا

مار دیا مرے بچوں کو

اک آواز اٹھانے پر

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے