ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے

چھین لیا گیا جو کچھ ہمارے پاس تھا

دیدہ دلیری سے چُرا لیا گیا

اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی!۔

کہ چُرایا جارہا ہے ہمارا مال

رنگ روپ ہمارا، ساری طاقت

باضمہ، یادداشت

 چُرالیے گئے ہمارے دانت اور بال تک

کس کے در پر فریاد کریں؟

نہ قاضی ہے نہ اس کے عمالّ

کہ چُرائی جاچکی ہے ہماری بینائی اور سماعت

اس ویرانے میں اجڑے پجڑے کھڑے ہیں

اس حالت میں

کہ پہچانے تک نہیں جاسکتے

”ارے! کیا تم وہی ہو ؟“ لوگ کہتے ہیں۔

جب ہم دُہائی دیں تو ان کے پتھروں پر اثر نہیں ہوتا

وہنستے ہیں، سنگ دلی سے

”ہوں ہوں، لالچ مت کرو۔ لالچ بری بلا ہے۔“

لالچ؟

آہ کیا یہ لالچ ہے، اپنے گم شدہ مال کے لیے فریاد!۔

وقت ہی تھا وہ۔۔۔ ہاں وقت

جو چُپکے چپکے لوٹ لے گیا ہمیں

دیکھو! کیسے کج مج بھاگ رہا ہے!۔

مکار، بہرو پیا، ٹھگ

جب کہ ہم نے سادگی سے اسے ملازم رکھا تھا

اپنے چھوٹے موٹے کام کروانے کے لیے،

پکڑ لو اسے جانے نہ پائے۔۔۔

اس کی مشکیں کس لو،

ایک تنگ وتاریک قید خانے میں ڈال دو اسے

پھر ہم اس پر ٹوٹ پڑیں گے

درّے مار مار کر اس کی کھال اُدھیڑ ڈالیں گے

اور پوچھیں گے کہ بتا!۔

کہاں چُھپایا ہے تو نے

چوری کا سارا مال، جو ہمارا تھا؟

تُو نے مالک کے اعتبار کو دھوکا دیا

اتنا شرم ناک جُرم!۔

شاید تیری سزا صرف موت ہے

جو تجھے اذیتیں سہتے ہوئے آئے

اور جس میں برسہا برس لگیں

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے