سیاست، سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے حوالے سے”روشن فکر“ دانشوروں کی بہکا بہکی آج کی نہیں ہے۔چونکہ ایک عرصے سے اس خطے کا دانشور لفظ ”حکمران طبقات“ کا استعمال ترک کر چکا ہے۔ اسی وجہ سے اُسے راستہ نظر نہیں آتا۔ اور وہ ہر ایستادہ کرہ بُت کو نجات دھندہ قرار دے کر اس کے قصیدے پڑھنے لگ جاتا ہے۔ ”حکمران طبقات“ اتنا اہم لفظ ہے کہ دنیا بھر میں جس سیاسی ورکر اور دانشور نے اُسے ترک کیا، بھٹکتے رہنا اُس کا مقدر بنا۔ یہی کچھ ہمارے خطے میں ہوا۔ہم یہاں اس اصطلاح کو بالکل ہی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم تودو آپشنوں پہ لٹکے چلے آرہے ہیں: مارشل لا،یا ”جمہوریت“۔

                ظاہر ہے کہ ہر باشعور اور آزاد فکر انسان مارشل لا سے دور بھاگے گا۔ اور جمہوریت کے حق میں جائے گا۔ اس لیے کہ یہاں مارشل لاؤں نے فیوڈلزم کواپنا کرہمارے معاشرے کی دری کا آخری دھاگہ تک تباہ کرکے رکھ دیا۔ سماج پسماندہ رہا۔ انڈسٹری نہ لگی، تعلیم کا نصاب رجعتی رکھا۔ عورتوں پہ بدترین معاشرتی پابندیوں کو فروغ دیا، جبر بربریت اور لاقا نونیت کو عام کردیا۔ چنانچہ سائنس اور ٹکنالوجی کے عہد میں بھی یہاں ایک پست اور بند معاشرہ قائم رہا۔ خارجی طور پر اس ملک کو دفاعی معاہدوں میں نتھی کردیا گیااور امریکہ کی غلامی اختیار کی گئی۔

                 مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں مارشل لا والے اکیلے تھے؟۔کیا عدالت ان کے ساتھ نہ تھی؟۔کیا میڈیا اُن کے ساتھ نہ تھا؟۔ کیا جاگیردار، پیر اور پنڈت ان کے ساتھ نہ تھے؟۔انہی چھ قوتوں کو ملا کر جوگروہ بنتا ہے اُس کو ”حکمران طبقات“ کہاجاتا ہے۔ یہ کبھی بھی جدا نہیں ہوتے۔ حکومت خواہ ضیا کی ہویا نواز وعمران کی۔

                اصلی فقرہ ”حکمران طبقات“ چونکہ چھوٹ گیا اس لیے لوگوں نے بس ایک فقرے کو پلّو سے باندھا۔ اور اس قدر زور سے باندھ دیا کہ چادر، گِھس کر تار تار ہوگئی مگر وہ فقرہ موجود رہا۔ فقرہ تھا: بدترین جمہوریت بھی بہترین مارشل لا سے بہتر ہے۔

                اوراِس جمہوریت کی کھوج میں نجیب و شریف لوگوں نے کلی کیمپ وشاہی قلعے آباد کیے۔کوڑے، پابندیاں، اور جلاوطنیاں سہیں۔ بے روزگاریاں دیکھیں، غداریوں کے فتوے جھیلے اور مچ، ساہیوال جیلوں کے کھنڈرات کو آباد کیا۔

                اور پھر، اِن بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں ایوب کے اختتام کے زمانے میں خود مارشل لا والوں کو بھی یقین ہوگیا کہ اب اندھیرنگری اس قدر ننگی صورت میں نہیں چل پائے گی۔ کوئی پیاز کی جھلی جتنا پردہ تو بہر حال کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ”حکمران طبقات“کی طرف سے مارشل لا کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کے پیچھے چھپاڈالنے کا کام شروع ہوا۔ ”حکمران طبقات“ہی کی نگرانی میں سیاسی پارٹیاں بنوائی گئیں، لیڈر تراشے گئے اور نعرے ڈھالے گئے۔ تب رومان بھرے، تفکر وصبر سے عاری دانشوروں نے بھی جمپ مارا اور بجائے اپنی پارٹی بنانے کے، اِن نئی نئی بورژوا سیاسی پارٹیوں کے منشور، تقریریں،اور قراردادیں لکھنے لگے۔ اُن کے لیے ترانے ایجاد کیے اور لیڈر صاحب کو پاک پوتر،اصولی، اورانقلابی بنا کر پیش کردیا۔

                فیوڈل سیاستدانوں کے بیچ ایک آدھ شفاف الیکشن بھی ہوئے۔ مگر،پہلے ہی جھٹکے میں ایجنڈے سے ہٹے ہوئے مجیب کو اُس کی زمین کے ساتھ خود سے الگ کردیا۔ دوسرے ”نیم انکاریوں“ میں سے ایک پر حیدرآباد سازش کے نام پر بالآخر پابندی لگادی، دوسرے کوپھانسی اور بم کے ذریعے ماردیاگیا۔یوں اپنے ہی تعویذ کردہ وفادار بظاہرسویلین لگتے ہوؤں کو ڈھونڈ کر میدان ِ الیکشن میں چھوڑ دیا گیا۔اکثر تو یہیں سے ملے، کچھ البتہ اِدھر اُدھر حتیٰ کہ امریکہ تک سے درآمدکیے گئے۔(کینڈا سے بھی!)۔

                اپنی مرضی سے توڑنے مروڑنے کو مینی پولیشن کہتے ہیں۔ چنانچہ حکمران طبقات نے مینی پولیٹڈ فیوڈل نفسیات کے عین مطابق سیاسی پارٹیاں قائم کروائیں۔ اور پھر پارٹی کے بجائے اُس کے لیڈر کو ایسا معتبر بنادیا گیا کہ وہ  اگر”کھمبے کو بھی ٹکٹ دے تو کھمبا بھی کامیاب ہوجائے“۔ یوں سلیکٹڈ لیڈر پارٹی کے اداروں، اور اُس کے اساسی اصولوں سے ہی بالاتر ہو گیا۔ پارٹی،سیاسی پارٹی کے بجائے جاگیر دار کا ڈیرہ بن گئی۔لیڈر ہی کا فقرہ آئین اور اسی کی بات حتمی ٹھہری۔اُسی سے وفاداری پارٹی سے وفاداری قرار پائی اور اسی کی خوشنودی عزت وترقی کا معیار ٹھہرا۔

                اِس ساری مینی پولیشن کی ایک مثال پیپلزپارٹی کی ہے۔ اس پارٹی کی بنیاد سب سے بڑے دانشور کے گھر پہ پڑی تھی۔ اس کا منشور ”روشن خیال ترین“لوگوں نے لکھا تھا۔ اور اُس کے اساسی قائدین مشہور جمہوری لوگ تھے۔ مگر تین چار سال کے اندر اندر بھٹو کو ایسا جگمگایا گیا کہ باقی لیڈر شپ اورمنشور نویس دانشور”شامل باجے“ ہوتے گئے۔ بھٹو نے پارٹی منشور، اصول اور بنیادی جمہوری باتوں اور دانشوروں کی خوبصورت گھڑے نعروں کو اُن کے خالقوں کے ساتھ پاؤں کی ٹھو کر میں رکھا۔ اب اُسے اتنا مقبول ”بنادیا“گیا تھا کہ اس کی پارٹی میں شامل ”جمہوری، روشن فکر اور ترقی پسند“ لیڈروں  دانشوروں نے اختلاف کی جرات ہی نہ کی۔ ایک نے بھی استعفے نہ دیا۔۔۔اور اس کے باوجود ایک کو بھی بھٹو نے نہیں بخشا، سب کو بغیر وجہ کے نکال باہر کیا۔

                جب ”حکمران طبقات“نے چاہا تو فلاں جج، پیر فلاں، اور مفتی فلاں اور فیوڈل فلاں،اور ضیا پہ مشتمل حکمران طبقات نے بھٹو سے جان چھڑا ئی۔ مینی پولیٹڈ پیپلز پارٹی کا لیڈر تو ماردیا گیا۔ مگر پارٹی زندہ رکھی گئی، بہ وقت ضرورت کام آنے کے لیے۔ چنانچہ موروثی بادشاہوں کی طرح بے نظیر، زرداری اور بلاول ہی شہرت و طاقت پاتے رہے۔ دانشور بے چارہ اب بھٹو کے بجائے اِن نئے آقاؤں کے قصیدے لکھنے میں لگ گیا۔

                متبادل کے طور پر ایک اور سیاسی پارٹی بھی بنوائی گئی:مسلم لیگ ن۔ او رپھر اس کے آئین و منشور اور خوبصورت نعروں کے کھنڈرات پہ لیڈروں کو کھڑا کر کے مقبول بنایا گیا۔ نواز شریف شہباز شریف، مریم شریف، فلاں شریف، فلاں شریف۔۔۔۔ کوئی سنٹرل کمیٹی نہیں،کوئی الیکشن، منشور، ادارے نہیں۔ بس ایک خاندان۔ اور چاپلوس دانشور کسی نہ کسی نعرے کو بہانہ بنا کر اُن کی قصیدہ گوئی میں لگا رہتا ہے۔دراصل دانشور کی اپنی پیٹی بورژوا بنیاد ڈسپلن کے لیے اس کی ناگواری اور تنظیم کے لیے اس کی نا پسندیدگی کا باعث ہے۔ اس کی پیٹی بورژوا سماجی بنیاد،انا پرستی اور موقع پرستی کے سب سے بڑے جوہڑہیں۔۔۔اور ہم نے دیکھا کہ جب نوازشریف اچانک ”نظریاتی سیاستدان“ہو گیا تب تو بورژوا دانشوروں نے اُس کے اِس دعوے کو حقیقت قرار دینے کے لیے اپنے گلے پھاڑ ڈالے۔ نواز کو اصلی اور اصولی بنا کر پیش کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے۔اور صدقِ دل سے اُس کے بظاہر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کومارکیٹ کرتے رہے۔

                لیکن سب ”شامل باجوں“ کو حیرت میں ڈال کر مسلم لیگ جلد ہی ”عقل“ کے غسل خانے کے مقدس پانیوں میں سے ہو کر اصلی حالت میں واپس آگئی۔ نظریاتی شدہ لیڈر ساری ڈینگیں مار مار کر ہوائی جہاز پہ بیٹھ کر اچانک لندن جا کر کڑھائیاں کھا رہا ہے۔مگرکندھار کی سرحد سے لے کر واہگہ بارڈر تک اُس کی پارٹی خاموش ہے۔ کوئی اُسے کچھ نہیں کہتا۔ اُس سے ایک بھی دانشوراور لیڈر بغاوت نہیں کرتا۔لکھ کر لیجیے کہ موقع پرستی کی عدت گزار کر نواز شریف یا اُس کی فیملی کا کوئی فرد حسبِ ضرورت پھر سلطان راہی بن کر آئے گا توسجدوں کا عادی دانشور ایک بار پھر جوق در جوق اس کی جلسہ گاہ کے لیے بینر اور نعرے گھڑے گا۔

                بورژوا پارٹی کا ایک تیسرانمونہ تحریک انصاف ہے۔ اُسے بھی یکا یک مقبولیت کے جیک لگا کر کھڑا کردیا گیا۔عمران خان کے کپٹلزم میں رہتے ہوئے کرپشن روکنے کی ناممکن اور بے بنیاد بات نے بھی ”حکمران طبقات“ کا لفظ بھلائے ہوئے”دانشوروں“ کو جذباتی بنائے رکھا۔”تبدیلی آئے گی نہیں، تبدیلی آگئی“ جیسے بھاری لفظ کو مذاق بنانے کے جرم میں وہ سارا دانشور شامل ہے جو اخباری کالموں اور ٹی وی چینلوں پہ ایک فردِ واحد کو دیوتا بنانے میں لگا رہا۔۔۔ کتابوں کے انبار پڑھنے اور لکھنے والوں کو اِن ساری پارٹیوں کے کنسورشیم کے پیچھے موجود جاگیردار، عدلیہ،میڈیا،کلرجی اور اسٹیبلشمنٹ کا ایکتانظر ہی نہیں آتا۔

                لیڈر صاحب نے خود خواہ جتنی بے اصولیاں کی ہوں، جتنے سیٹوسنٹوکیے ہوں،جتنی آئی ایم ایفیاں کی ہوں، جتنی جائیداد سازی کی ہو وہ لیڈر ہی رہتا ہے۔ اُس کی ہمہ وقت لاٹری نکلی ہوئی ہے۔مگر اگر پارٹی میں اسی لیڈر کی سرپرستی کے حامل کسی جغادری نے کبھی اُس کی حکم عدولی کی، یا محض حکم برآوری میں ماتھے پہ شکن پیدا کر دیے تو وہ یک دم  پارٹی کا”داغی“ بن جاتا ہے۔

                عام ورکر تو چھوڑیے، کمال دیکھیے کہ برسوں تک اِن پارٹیوں میں خدمات انجام دینے والے مرکزی رہنماؤں میں سے اگر پارٹی سربراہ کسی ایک سے ناراض ہوجائے تو ”سارا حکمران“طبقہ اُس سے منہ موڑ لیتا ہے۔وہ گم نامی کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔ ہمارے آپ کے سامنے ایسے ایسے جغادری لیڈر ہوا کرتے تھے جو پارٹی سربراہ کی خوشنودی کے زمانے میں ”شیرِ پنجاب“  وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ اور اوقات سے بڑھ کر دھمکیاں،کاروائیاں اور ”کارستانیاں“کرتے تھے۔ مگر جونہی لیڈر کی نگاہِ کرم بدلی،وہ جغادری صاحب گندگی کے ڈھیر پہ ڈھیر ہوگیا۔ کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ بھائی صاحب زندہ ہے تو کہاں ہے، اور اگر مر گیا تو قبر شریف کہاں ہے۔ ایسے لوگوں کو پارٹی بدرکرنے کے لیے کسی سنٹرل کمیٹی یا”کور گروپ“ کی میٹنگ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس لیڈر نے اپنا کام نکالا اور بغیر کسی چارج شیٹ اور نوٹس کے وہ زندہ آدمی نابود ہوجاتا ہے۔ گمنامی کی بے انت کھائی میں غرق۔نہ کفن نہ درود۔

                اِن پارٹیوں کے منشور لکھنے والے دانشور ”دائمی اور پیدائشی خوفزدہ“ لوگ ہوا کرتے ہیں۔ یہ دانشور صرف ڈرپوک اور موقع پرست ہی نہیں، پرلے درجے کا رومانٹسسٹ بھی ہے۔ وہ بے پرواہی، ابہام، نااہلیت،ہچکچاہٹ، جملہ سازی اور طویل بے نتیجہ بحثوں میں سیاسی ورکرز کو کنفیوز کرتا ہے۔مگر کنگھال کر دیکھیے، ہماری ساری بورژوا سیاسی پارٹیوں کے منشور لکھنے والے اِن منشیوں کے نام تک اُن پارٹیوں کے ورکرز اور نام نہاد عارضی لیڈروں کو معلوم نہیں۔ٹشو پیپرز!!

                صرف پارٹیوں کے معاملے میں ہی ایسا نہیں ہے۔ یہ دانشور انقلاب ڈھونڈنے ہرجگہ، پہنچ جاتے ہیں۔ ابھی ماضی قریب میں عالمی کپٹلزم نے مذہبی انتہا پسندی پیدا کردی اور پھر اُس سے نمٹنے کی تدبیریں سوچیں تو انہوں نے ایک نیا عقیدوی فرقہ ایجاد کیا: صوفی ازم۔ بس پھر کیاتھا ہمارا  ناتواں دانشور صوفی گیری میں رضا کارانہ طور پر، اور ایک دوسرے سے مسابقت میں گردن گردن ڈوبتا چلا گیا۔ بہت سے فلاسفروں، دانشوروں کو زور زبردستی صوفی بنادیا۔ صوفی میوزک کے میلے شروع ہوئے اور صوفی کانفرنسیں ٹائم پاسی کا ایک بڑا ذریعہ بنیں۔ بے پیندے کے یہ دانشور حکم پانے پر بچہ سقہ تک کو بھی صوفی ثابت کریں۔

                چنانچہ حقائق یہ ہیں کہ سیاست  ایک پارٹی، ایک ادارے، اور ایک گروہ کے پاس نہیں ہے بلکہ ”حکمران طبقات“کے قبضے میں ہے۔دانشور اُن طبقات کا ڈھولچی ہے۔ اُسے بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔

                عوامی بالادستی کی جدوجہد تب ہی کامیاب ہوگی جب پاکستان کے دانشور سیاسی شعبدہ بازوں کو سمجھ جائیں گے۔ سارے تو نہیں مگر کم از کم دانشوروں کے ایک حصے کو تو عوامی نظریہ پر مبنی ایک متبادل سیاسی پارٹی بنانی ہوگی۔ ایسی پارٹی جو”حکمران طبقات“سے تعلق نہ رکھتی ہو، بلکہ عوام سے ہو۔جو محض لیڈروں سے نہ چلتی ہو بلکہ پارٹی کے اندر اداروں اور عوامی آزادی کے نظریہ سے مزین و مستحکم ہو۔ ایسی پارٹی جوہر اُس پہاڑ سے ٹکرا جائے جو عوامی بالادستی کے سامنے رکاوٹ بنے۔

                ذہنوں میں اب سوال اٹھنا چاہیے کہ کیا ہمارے دانشور کے پاس ”بدترین جمہوریت“ اور”بہترین مارشل لا“ کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہے؟۔

                ذہنوں میں اب سوال اٹھنا چاہیے کہ کیا ہمارے دانشور کی ڈکشنری میں ”حکمران طبقات“ کا لفظ موجود ہے؟۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے