غم نہیں لشکرِ اغیار وار کردے تو

فکر یہ ہے کہیں غمخوار وار کردے تو

 

عارضی جیت پہ نہ جشن مناؤ لوگو

دائمی ہار کی تلوار وار کردے تو

 

تم کمیں گاہ سے دشمن پہ نگاہ رکھے ہو

آستیں کا ہی کوئی مار وار کردے تو

 

عقل عاجز نہ رہی تو شکست واجب ہے

زعم کمبخت خبردار وار کردے تو

 

پارسائی نہ دکھاوا ہو جانچ لو پہلے

بعد میں باطنی بدکار وار کردے تو

 

پیار میں دل گلاب ہے جو سْوکھ سکتا ہے

اس پہ لہجے کی تیز دھار وار کردے تو

 

بات پوری ہی بتائیں جی کیا پتہ کس دم

آپ کی اَن کہی گفتار وار کردے تو

 

لاتعلق ہوں پر اس خوف سے اْن کو سوچوں

کہیں تنہائی نابکار وار کردے تو

 

دل سْلگنے سے تان چیخ اْٹھے حیران نہ ہوں

صوت میں ساز پہ گر تار وار کردے تو

 

کجِ حرمت کا گلہ کیا عدو سے ہو ثاقبؔ

سرِ سردار پہ دستار وار کردے تو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے