شہر نو اطوار تیری خامشی بھی ہاؤ ہو

خواہشوں کا رقص جاری،لمحہ لمحہ چار سو

 

اک مسلسل جنگ ہے جو لڑ رہے ہیں خاکزاد

لفظ لفظ اور گیت گیت اور، دور دور اور دوبدو

 

جو بھی سوچا اور چاہا اس کو کرتی ہے بیاں

چشم ولب کی خامشی اور چشم ولب کی گفتگو

 

جسم کا ہر ایک خلیہ جاگنے لگتا ہے تب

جب سپر انداز ہو تو پور پور اور موبہ مو

 

وسعت افلاک میں جب خاکداں  ہی خاک ہے

پھر کسی کی جھونپڑی کیا، کیا کسی کے کاخ وکو

 

واپسی کی ساعتوں میں بانٹتا رہتا ہے دل

زندگی کی ریز گاری، بے طلب، بے آرزو

 

زندگی کے شور وشر میں رابطہ ہی کٹ گیا

آخری آواز دے پایا نہ میں اور نہ ہی تو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے