عبدالقادر رند           اور یہاں 1913میں کروپسکایا ایک بار پھر تھارائیڈ کی بیماری کی تکلیف میں تھی۔ آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی،گردن کے سامنے سوجھن، عام کمزوری، سردرد، تیز دھڑکن، لرزتے ہاتھ۔ خاوند بہت پریشان تھا۔ اس نے کروپسکایا کی خوب خدمت اور تیمار داری کی  (1)۔ پیسے کی تنگی الگ مسئلہ تھا۔ آپریشن کا مشورہ دیا گیا۔ لینن  نے پراودا کے ایڈیٹروں کو لکھا“ میں بھیک مانگتا ہوں کہ دیر نہ کریں۔۔۔ میری بیگم کا اپریشن ہے۔پیسوں کی اشد ضرورت ہے“  (2)۔

بہر حال کروپسکایا کا اپریشن ہوا۔ وہ اس آپریشن کے بعد 25سال زندہ رہی۔

سوئٹزرلینڈ میں یہ اُن کی تیسری اور آخری رہائش تھی(اگست 1914تا اپریل 1917)۔

یہیں لینن نے زور شور سے قومی سوال کا معاملہ اٹھا۔ اُس نے قومی سوال پہ کمیونسٹوں کی پالیسی اور پروگرام پہ خوب غور کیا۔ عالمی جنگ شروع ہونے سے قبل ہی اس نے ”قومی سوال پہ کرٹیکل تبصرے“اور ”قوموں کی خود اختیاری کا حق“ لکھے۔ جنگ کے دوران ”سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کی حق خود اختیاری“ اور ”خود اختیاری پہ بحث کو سمیٹا گیا“ لکھے۔ اس نے قوموں کی مکمل برابری کی ضرورت کے حق میں زبردست دلائل دیے۔ اور قوموں کی حقِ خود اختیاری بشمول حق علیحدگی اور آزاد ریاست کے حق کی وکالت کی۔اُس نے مطالبہ کیا کہ ”زار بادشاہ کی طرف سے محکوم کردہ قوموں کو حق خود اختیاری یعنی حقِ علیحدگی دی جائے“(3)۔ اُس نے ”گریٹ رشین“ شاونزم کی مذمت کی۔ اس کا کہنا تھا کہ بادشاہت ختم کرنے کے بعد ساری قومیتوں کے لیے تعلیمی اور کلچرل مساوات کا اعلان کیا جائے اور ”وسیع علاقائی اٹانومی اور مکمل طور پر ڈیموکریٹک مقامی خود حکومت“کا اعلان کیا جائے۔ اُس نے محترمہ روزا لگز مبرگ کے برخلاف پولینڈ اور فن لینڈ کو آزاد ہوجانے کے لیے مناسب قرار دیا اس لیے کہ وہ روسی سلطنت میں ”سب سے زیادہ مہذب اور سب سے زیادہ الگ“ وجود ہیں۔(4)

جنوری فروری 1916میں لینن نے ”سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کا خود اختیاری کا حق“ لکھا۔ اسے بالشویک سنٹرل کمیٹی نے منظور کر لیا۔ اور پورے مغربی یورپ میں تقسیم کیا گیا۔ یہاں قومی سوال کو سوشلسٹ انقلاب کا اٹوٹ حصہ قرار دیا گیا۔

ایک سوشلسٹ انٹرنیشنل کی حیثیت سے وہ مزدوروں کو قومی تعلق کا لحاظ کیے بغیر ماس آرگنائزیشنوں میں اکھٹاچاہتا تھا۔

اُس زمانے میں بڑھتا ہوا بین الاقوامی تضاد ایک دوسرے صنعتی انقلاب کے ساتھ مطابقت پارہا تھا۔ پہلا صنعتی انقلاب توبھاپ کا تھا، کوئلے کا تھا، لوہے کا تھا اور ریلوے کا تھا۔ یہ دوسرا والا سٹیل، بجلی، کیمیکلز اوربعدازاں تیل کا تھا۔ یہ نئی صورتیں ٹکنالوجیکل ترقیوں بالخصوص ایک عالمگیر ٹیلیگراف نظام،بھاپ کے بحری جہازوں، ڈائنا مائیٹ، مشین گن اور بڑے پیمانے کے سٹیل کا آرٹلری میں استعمال۔۔۔ سب اکٹھے آئے۔ ایک ملٹری انقلاب پیچھے پیچھے آیا، جس طرح کہ ہمہ جہت اسلحہ دوڑ ساتھ ساتھ آیا تھا۔

سال 1900میں لندن پہلی گلوبل معیشت کا فوکس تھا۔ گھنٹوں کے اندر اندر کمپنیاں اور حکومتیں ہانگ کانگ، سڈنی، الیگزینڈریا، بیونس آئرس، سان فرانسسکو یا کیپ ٹاؤن کے ساتھ رابطے کرسکتے تھے۔ لندن کے شہر میں معاشی تبدیلیاں ناقابل یقین تھیں۔ کروپسکایا اور لینن لندن کے اپنے دوروں میں کپٹلزم کے تضادات سے براہِ راست رابطے میں آتے رہے۔

ہماری آج کی دنیا میں جتنے ممالک ہیں ان کی بڑی اکثریت اُن دنوں غلام تھی۔ ممالک میں سب سے زیادہ غلام ملک فرانس اور برطانیہ کے پاس تھے۔ اوریہی دو ملک غلام ملکوں کو لوٹ لوٹ کر بہت ترقی یافتہ کپٹلزم قائم کر چکے تھے۔ ان کے بعد پرتگال، سپین اور بلجیم کے نام آتے ہیں جو ایشیاء، افریقہ اورامریکہ میں کئی سلطنتوں کو اپنا غلام بنائے بیٹھے تھے۔ روسی اور آسٹرو ہنگیرین سلطنتیں وسطی یورپ اور وسیع و امیر سائبیریا پر حاکم تھیں۔ ترکی پورے مشرق وسطیٰ پہ پنجے گاڑے بیٹھا تھا۔

یہ قبضہ گر اپنے اپنے حصوں پر مطمئن نہ تھے اور بڑا‘ مرغن،اور ”اچھا“ کے مطالبے کرتے کرتے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور  یوں،تاریخ کی سب سے بڑی جنگ شروع ہو گئی۔اسے پہلی عالمی جنگ کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ جنگ بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں نے شروع کی تھی جو دنیا کی آمدنی کے سرچشموں کو آپس میں از سر نو بانٹنا چاہتی تھیں۔

البتہ دو سامراجی ممالک‘ قبضہ کی اس دوڑ میں دیر سے شامل ہوئے: جرمنی اور امریکہ۔ جرمنی افریقہ اور بحر الکاہل کے محض کچھ مقبوضات کامالک بن سکا تھا۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ وسطی اور جنوبی امریکہ کو اُسی کی شکار گاہ بننا چاہیے۔ وہ چین پہ لوٹ مار کو بھی اپنا حق جتانے آ نکلا۔ حالانکہ چین پہلے ہی جاپانی سامراج کی چراگاہ بن چکا تھا اور اس کا تائیوان پہلے ہی اس کے قبضے میں تھا۔اُدھر جاپان روس سے سائیبریا بھی چھیننا چاہتا تھا جس کے لئے اس نے 1905 میں روس سے ایک جنگ بھی کی تھی۔

دوسری طرف روسی انقلابیوں کا حال بھی اچھا نہ تھا۔ اُن کا اخبار ”پراودا“ جنگ سے ذرا پہلے سرکار نے بند کردیا تھا۔ بیرون ملک ”مزدوروں کا اخبار“ اور ”سوشل ڈیموکریٹ“ کو خود بالشویکوں نے بند کر دیا تھا۔

عالمی جنگ یوں چھڑ گئی کہ یکم اگست کو جرمنی نے روس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ 3اگست کو فرانس پر، اور 4اگست کو بلجیم پر۔ چار اگست کو انگلینڈ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ 6اگست کو آسٹریا نے روس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، 11اگست کو فرانس اور انگلینڈ نے آسٹریا کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ (5)۔

جوں جوں جنگ بڑھتی گئی لوگوں کے مصائب و آلام بڑھتے گئے اور اس کے خاتمے کا مطالبہ بڑھتا گیا۔ نو آبادیوں میں رہنے والے عوام کے استحصال اور اس سے متعلقہ جنگوں نے عوامی سرگرمی کی ایک نا گزیر لہر پیدا کر دی۔۔۔۔ عوامی سرگرمی  توانقلاب پہ منتج ہوتا ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ مارکس اور اینگلز کی تعلیمات کو راہبر بناتی انقلابی پارٹیاں ابھرنے لگیں۔ افریقہ اور دیگر ممالک میں سامراج دشمن  اقدام ہونے لگے۔

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ 1914کے گرم اگست میں یورپ نے خوشی خوشی اپنی بربادی کی ابتدا کرلی۔ سامراج نے بنی نوع انسان کو ایک تباہ کن،اور غارت گرجنگ میں دھکیل دیا۔ اس جنگ نے ناقابلِ بیان دکھ اور آلام لانے تھے، محاذ کے ملینوں آدمیوں کی موت ہونی تھی اور کروڑوں خاندانوں کو ماتمی کرنا تھا۔

یہ جنگ جنگل کی آگ کی سی تیزی سے پھیلی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ سامراج کے دو بلاؤں کے بیچ کا لونیوں اور اثر کے علاقوں کی دوبارہ تقسیم پہ چھڑی۔ایک بلاک جرمن سامراج کی قیادت میں آسٹریا وہنگری، ترکی اور بلغاریہ پر مشتمل تھا۔ دوسرے بلاک کی قیادت برطانیہ اور فرانس کر رہے تھے۔ اور بادشاہت والا روس بھی اس بلاک کاممبر تھا۔ بعد میں جاپان اٹلی اور امریکہ اور دیگر ممالک بھی برطانیہ اور فرانس والے بلاک میں شامل ہوگئے۔

یہ دنیا پہ اقتدار حاصل کرنے کے خواہشمند دو مسلح اتحادوں کے بیچ مرگ وزند کی جنگ تھی۔

لینن کے فہمیدہ دماغ کو نظر آیا کہ اس جنگ نے کپٹلزم کے سارے تضادات کو ننگا کر دینا ہے، ہر ملک میں کلاس سٹرگل کو بڑھاوا دینا ہے اور عمومی سیاسی بحران پیدا کرنا ہے۔چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ روس میں انقلاب کو تیز کیا جائے۔

جونہی جنگ کا اعلان ہوا تو لینن کی قیادت میں روسی بالشویک پارٹی نے روس کے ورکنگ عوام کو بہت سخت نعروں پہ مشتمل اپیل کردی: ”جنگ مردہ باد! جنگ کے خلاف جنگ“۔

سپاہیوں سے بھری بدبخت ٹرینیں سرحدوں کی جانب روانہ ہوئیں۔ یورپ کو حب الوطن جذبہ نے آن لیا جس نے کہ محض ایک دن قبل کے ”انٹرنیشنلسٹ“لوگوں کو یکدم ”نیشنلسٹ“بنالیا۔ اب انہیں بورژوازی بھی بھول گئی اور سامراج بھی۔ جذباتی بنانے والے مردم کُش جنگی بینڈ ملکوں کے سارے بڑے شہروں میں کُوکنے لگے۔ جنگی ترانوں کے بھیڑیے بول رہے تھے۔ کپڑوں کے چھیتڑے ان بینڈوں کے پرچم بن کر انسانی خون سے لتھڑنے کا عہد کررہے تھے۔ اِن بینڈوں ترانوں اور پرچموں والی سڑکوں کے گرد اکٹھا ہونے والے ہجوم ماتم کے بجائے تالیاں بجا رہے تھے۔ ایسی جذباتی جنگی فضامیں اگرتؤکلی مستوں پر مشتمل اکاد کا جلوس نکلتے بھی تھے تو انہیں بزدلی کے طعنوں، حقارتوں اورتھوکوں میں غرق کیا جارہا تھا۔ عالموں،فلاسفروں،سائنٹسٹوں اور شاعروں پہ فخر کرنے والی یورپی انسانی نسل اب اپنے بیٹوں بھائیوں کی کراہوں میتوں ماتموں کی فرمائشیں کرنے لگی۔

شیطان نے سب سے پہلے جرمن انقلابیوں کو ورغلایا۔جرمن پارلیمنٹ میں موجود سوشلسٹوں نے 4اگست 1914کو اعلان کیا کہ ”خطرے کی گھڑی میں ہم اپنے پدر وطن کو بغیر حفاظت نہیں چھوڑیں گے“۔ اور انہوں نے ڈکٹیٹر کیسرؔ کی چھیڑی جنگ کے لیے بھاری رقم دینے کے حق میں ووٹ دیا۔ فرنچ اور بلجیم کے سوشلسٹوں نے بھی جنگ کے حق میں اپنی اپنی حکومتوں کا ساتھ دیا۔ دوسرے لفظوں میں سوشلسٹوں کی بین الاقوامی تنظیم ”سیکنڈ انٹرنیشنل“ اب ایسی پارٹیوں میں تقسیم ہوگئی جو جنگجو اور قوم پرست تھیں اور جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ یوں سیکنڈ انٹرنیشنل کا وجود سمجھو ختم ہوگیا۔

لینن نے انقلابی مارکسٹوں پہ زور دیا کہ وہ ایک ”تیسری انٹرنیشنل“قائم کریں جو سوشل شاونسٹوں اور موقع پرستوں سے پاک ہو۔ لینن نے اسے ”موقع پرست سکینڈ انٹرنیشنل کی تحلیل“ کہا۔ اس نے اعلان کیا کہ ”آج سے میں ایک سوشل ڈیموکریٹ نہیں، ایک کمیونسٹ ہوں“۔اس نے کسی سے بھی متاثر ہوئے بغیر اصرار کیا کہ ”ورکنگ عوام الناس ساری رکاوٹوں پر قابو پالیں گے اور ایک نیا انٹرنیشنل تخلیق کریں گے (6)۔ اس لیے کہ ”جتنی جنگی قربانیاں ہوں گی اسی قدر ورکنگ عوام الناس واضح طور پر موقع پرستوں کی طرف سے مزدروں کے کاز سے غداری کو دیکھ سکیں گے اور اپنی بندوقیں اپنے اپنے ملک کی بورژوازی اور حکومتوں کے خلاف موڑنے کی ضرورت کو واضح طور پر دیکھ سکیں گے“ (7)۔

1914-17انسانی تاریخ کے خونی ترین سال تھے۔ اس  پہلی عالمی جنگ سے پہلے کی انسانی تاریخ میں کوئی بھی واقعہ اِس انسانی خونریزی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ منٹوں لمحوں کے اندر اندر    ہزار وں انسانی زندگیاں گُل کردینے والی یہ مہیب جنگ انسانی عقلِ سلیم پر ایک بدنما داغ کے بطور رہے گا۔

اوراِس ذبیحے کا سارا ذمہ دار بورژوا طبقہ تھا۔

اس جنگ نے روس کے اندر بورژوازی پر پرولتاریہ کے حملوں میں رکاوٹ ڈالی اور یوں طبقات کے بیچ جو نجیب جنگ جاری تھی، وہ اب ایک بدنماقومی جنگ میں بدلنے لگی۔

جب،اگست 1914میں جرمنی نے روس  پر اعلانِ جنگ کردیاتوکروپسکایا اور لینن کراکاؤ میں تھے۔ وہ اپنی کھڑکی سے جنگ سے لائی جانے والی لاشوں کو دیکھا کرتے تھے۔ انہیں سٹریچروں کے ساتھ ساتھ مرے ہوؤں کی بیویاں اور فیملی ممبرز بھاگتے ہوئے نظر آتے، اس خوف سے کہ کہیں وہ لاش اُن کے آدمی کی تو نہیں (8)۔

چنانچہ لینن ایک بار پھر سب سے الگ میدان میں تھا۔وہ اس ”سوشل حب الوطنی“سے الگ ہونے میدان ِ عمل میں کود پڑا۔اس نے وضاحت سے بتایا کہ جو عالمی جنگ شروع ہوئی ہے وہ سامراجی جنگ ہے۔ اس جنگ کو بڑے سرمایہ دار ملکوں کی بورژوازی نے شروع کیا ہے۔ اس میں روسی بورژوازی اور زار شاہی بھی ملک گیری کے ابلیسی منصوبوں کے ساتھ شامل ہو گئی ہیں۔ بورژوازی اور فیوڈل،اِس جنگ کو اپنے اپنے ملکوں کے محنت کشوں کی انقلابی تحریک کو روکنے کا ذریعہ بھی سمجھتے تھے۔

یہ تو ٹھیک ہے کہ اس عالمی جنگ میں لینن کچھ اور سوچ رہا تھا۔ سب سے الگ، سب سے جدا۔۔۔ مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اور اِس فیصلے میں اسے کچھ دیر لگی ہی نہیں۔ جنگ کو دوماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ لینن 17اکتوبر  1914کو اپنے ملک روس کی شکست کی خواہش کر رہا تھا۔ ”اس میں ذرا بھی شبہ نہیں، بالکل کوئی شبہ نہیں کہ کمترین برائی ابھی اور فوری طور پر اِس جنگ میں روس میں زار بادشاہت کی شکست ہے۔ اس لیے کہ زار اِزم کیسرازم سے سوگنا بدتر ہے“ (9)۔

لینن نے ”وطن کی حفاظت“ کو ایک موقع پرست نعرہ قرار دیا۔اُس کے مقابلے میں لینن نے یہ انقلابی اپیل کی کہ ”سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دو“۔ ”جنگ میں اپنی حکومت کی شکست“۔ اس نے بتایا کہ محاذ پر شکست سے اُس ملک کے محنت کش کے دشمنوں یعنی، استحصال کرنے والے حکمران طبقوں کی طاقت کمزور ہو گی اور عوام کی فتح آسان ہوگی۔

لینن کا مشاہدہ تھا کہ ”روس میں پرولتاریہ وہ واحد طبقہ ہے جو شاونزم سے انفیکٹ نہیں ہوا“۔ یوں، لینن کی پہل کاری پہ روسی ورکنگ کلاس نے بورژوازی کے ساتھ ایک ”طبقاتی امن“ قائم کرنے سے انکار کردیا۔

لینن اور کروپسکایا کے موقف پہ بین الاقوامی تحریک میں صرف کارل لیب نخت، روزا لگزمبرگ، کلارا زیٹکن،اور فرانز مہرنگ جیسے بڑی قد والے لوگ ساتھ تھے۔ باقی سب سوشل شاونزم کے ساتھ تھے۔

اسی جنگ کے بارے میں اس نے جون 1915میں اپنے پمفلٹ ”سیکنڈ انٹرنیشنل کا بکھرجانا“میں لکھا: ”جنگ کا تجربہ تاریخ میں ہر بحران کی طرح، ہر بڑی بربادی کی طرح، اور انسانی زندگی میں ہر اچانک موڑ کی طرح، کچھ کو حواس باختہ اور برباد کرتی ہے مگر باقیوں کو روشن خیال اور سخت بناتی ہے“۔

کمال موقف تھا یہ۔ لینن ایک طرف تو انٹرنیشنل ازم اور عالمی ریاست کی بات کرتا تھا اور دوسری طرف وہ نیشنلزم، خود اختیاری اور علیحدگی کے حق پہ زور دیتا تھا۔(10)۔

سامراجی جنگ چھڑنے پر آسٹریا کی پولیس نے لینن کو گرفتار کرلیا اور گیارہ دن تک جیل میں رکھنے کے بعد اُسے رہا کردیا۔ رہائی کے بعد وہ سوئٹزر لینڈ شفٹ ہوگیا اور جنگ کے سماجی اور تباہ کارانہ کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے اُس کی مخالفت کرنے لگا۔

سوئٹزر لینڈ میں یہ اُن کی تیسری اور آخری رہائش تھی(اگست 1914تا اپریل 1917)۔

اب عالمی جنگ تھی۔ اور اُن کا روس کے عوام سے رابطہ ناممکن ہوگیا تھا۔وہ بظاہر کوئی خفیہ یا اوپن اخبار نکال اور چلا نہیں سکتے تھے۔ مگر انقلابی تو ناممکنات کے اندر کھیلنے والے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ انہوں نے گوشت وپوست کے پاپڑ بیل کر(ایک سال کے وقفے کے بعد) ”سوشل ڈیموکریٹ“ نامی اخبار دوبارہ شروع کر ہی دیا۔ کمال یہ بھی ہے کہ وہ اسے باقاعدگی سے نکالتے رہے۔ مارچ 1917میں سوئٹزرلینڈ چھوڑنے کے وقت تک وہ اس اخبار کے بارہ سے زائدشمارے نکال چکے تھے۔

نومبر 1914 ء کے شمارے میں  روسی سوشل ڈیمو کریٹک  لیبر پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا منشور ”جنگ اور روسی سوشل ڈیمو کریسی“ شائع ہوا جس کو لینن نے جنگ سے متعلق مقالوں کی بنیاد پر لکھا تھا۔

یہ وہ زمانہ ہے جب سٹالن سمیت کچھ لیننسٹ جیل اور جلا وطن تھے۔ اس سٹالن نے بعد کے سالوں میں شہرت واقتدار بھی کمانا تھا اور بہت بہتان بھی سہنے تھے۔ اُس وقت تک تو وہ لینن کا ”میرا عمدہ جار جیائی“ تھا۔ فروری انقلاب کے بعد سٹالن کو جیل سے رہائی ملی اور اس کے بعد وہ لینن کا قریب ترین اور قابل ِ بھروسہ مدد گار بنا۔

1915کا موسم بہار کروپسکایا کے لیے رنج و الم کا زمانہ تھا۔ اس کی ماں یلیزا واسیلیونا  طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد 20مارچ کوبرن میں فوت ہوئی اور 23مارچ کو اس کی میت کو  کریمیٹ کردیا گیا (جلا دیا گیا)۔واضح رہے کہ اب یہ خاندان برن منتقل ہوگیا تھا۔ مگر یہ ماتم مختصر تھی اس لیے کہ دونوں میاں بیوی کو،خود کو 26سے 28مارچ تک وہیں برنؔ میں انٹر نیشنل سوشلسٹ ویمنز کانفرنس میں جھونکنا پڑا۔

بعد میں مئی کے ماہ میں کروپسکایا پھر گلینڈولر بیماری سے متاثر ہوئی۔

انہی جنگ کے سالوں نے اِس خاندان کی روح کو ایک اور زخم دیے بنانہ چھوڑا۔ کروپسکایا کی ساس، لینن کی ماں 25جولائی 1916کو 81برس کی عمر میں فوت ہوئی۔ماں بیٹے نے 1915 سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھاتھا۔وہ سینٹ پیٹرسبرگ میں اس کے جنازے تک میں شریک نہیں ہو سکا۔ ماں کی موت تو بہر حال جھنجوڑ ڈالتی ہے۔لینن نے کشٹ وقہر کی ندیاں پار کیں انقلاب کی راہ میں!۔

***

کروپسکایا اور لینن بین الاقوامی ورکنگ کلاس کی یکجہتی اور جنگ کو سول وار میں بدلنے کی ضرورت پہ زور دیتے رہے۔ انہوں نے اعلان کیے رکھاکہ یہ سامراجی جنگ ہے۔لینن نے ستمبر1914میں پیش بینی کی تھی کہ سامراجی جنگ ”نے ہر حال میں دشمن طبقات کے بیچ سول وار میں بدل جانا ہے“ (12)۔

لینن نے لکھا ”ہم 1914—16 کی سامراجی جنگ میں اور دوسری سامراجی جنگوں میں جو سامراجی دور کی خصوصیت ہیں، وطن کی حفاظت اور دفاع کے خلاف ہیں۔ سامراجی دور میں ”منصفانہ“، ”دفاعی“ اور انقلابی جنگیں بھی تو ممکن ہیں“۔

لینن انقلابی محاذ کے ایک مورچے سے دوسرے میں چھلاوہ بن کر لپکا۔ کبھی تقریر، کبھی بحث، کبھی اخباری مضمون اور کبھی اداریہ۔ چنانچہ ایک خط میں اس نے لکھا:”یہ ہے میری قسمت، ایک مجاہدانہ مہم سے دوسری کی طرف۔ سیاسی حماقتوں، کمینہ پن اور موقع پرستی وغیرہ کے خلاف۔

”ایسا  1893 سے ہوتاآ رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے کمینوں کی نفرت بھی۔ پھر بھی میں اپنی قسمت ان کمینوں کے ساتھ ”صلح“ سے بدلنے کے  لئے تیار نہ ہوا“۔(13)

۔1915 میں اپنے مضمون ”چند مقالات‘‘ میں لینن نے لکھا:”اس سوال کے لیے کہ اگر موجودہ جنگ میں انقلاب نے اس کو برسر اقتدار کر دیا ہوتا تو پرولتاریہ کی پارٹی کیا کرتی، ہمارا جواب یہ ہے: ہم تمام جنگ کرنے والوں کے سامنے صلح کی تجویز اس شرط کے ساتھ رکھتے کہ نو آبادیوں اور تمام محکوم، مظلوم اور حقوق سے محروم قوموں کو آزاد کر دیا جائے“۔ اورتاریخ گواہ ہے کہ روس میں پرولتاریہ کے برسر اقتدار آتے ہی اور بالشویک پارٹی کے حکمراں پارٹی بنتے ہی یہی کیا گیا۔(14)

اس دوران کروپسکایا کی صحت اچھی نہ تھی۔ وہ تھا ئرائڈ کی ”گریوز“ نامی بیماری میں مبتلا تھی۔ گردن پہ گٹھلی، آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی، دل کی دھڑکن تیز۔ ماں کی موت کے بعد اس کی حالت زیادہ خراب ہوگئی۔

۔1915کے  سال تو لینن نے زبردست مضامین لکھے۔ ”سیکنڈا نٹرنیشنل کی تحلیل“، ”موقع پرستی اور سکینڈ انٹرنیشنل کی تحلیل“ ”سوشلزم اور جنگ“،”سامراجی جنگ میں کسی کی اپنی حکومت کی شکست“ ”ایک یونائٹڈ سٹیٹس آف یورپ کے لیے کے نعرے پہ“۔

۔ 5ستمبر1915سارے یورپی جنگ دشمن سوشلسٹ گروپوں کی جو خود کو ”انٹرنیشنلسٹس“کہتے تھے ایک کانفرنس سوئٹرزر لینڈ کے مقام زِمّروالڈ میں منعقد ہوئی۔ (15)۔ لینن نے اسے جنگ کے خلاف ایک انٹرنیشنل تحریک کے قیام کا ”پہلا قدم“ کہا۔

1916میں انٹرنیشنلسٹ ایک سوس گاؤں میں ایک دوسری کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اُسے سیکنڈ زِمّر والڈ کانفرنس کہا جانے لگا۔ اُس وقت تک انٹرنیشنلسٹوں کے گروپ ہر ملک میں قائم ہوچکے تھے۔ اور اِن کے اور سوشل شاونسٹوں کے بیچ شگاف بہت گہرا ہوچکا تھا، اور روز بروز اختلافات تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ مگر بڑی بات یہ ہوگئی کہ جنگ کے اثر میں خود عوام الناس لیفٹ کی طرف شفٹ ہوگئے۔ اس کانفرنس میں ایک مینی فیسٹو پہ اتفاق کیا گیا جسے زِمّر والڈ مینی فیسٹو کہتے ہیں۔

۔1916 کے خزاں میں لینن نے خود کو لائبریری کے حوالے کردیا۔ روزانہ صبح 9بجے سے لے کر شام چھ بجے تک وہ اپنی کتاب ”امپیریلزم، کپٹلزم کا بلند ترین مرحلہ“ مکمل کرنے کے لیے مواد جمع کرتا تھا۔  1916میں اس نے اپنی کلاسیک کتاب ”امپیریلزم، کپٹلزم کا بلند ترین مرحلہ“ لکھی  (جو 1917کے اوائل میں چھپی)۔اب لینن ایک اور لحاظ سے بھی تخلیقی شخص بنا۔ اس لئے کہ تاریخ کے ایک اور مظہر سے اس کا  سامنا ہوا جس سے مارکسی سائنس کی ابھی تک مدبھیڑ نہ ہوئی تھی۔ اب ایک نئی حقیقت آن پیش ہوئی۔ اور وہ حقیقت تھا سامراج۔ جس کا کہ پہلے وجود نہ تھا۔ یہ لینن ہی کے زمانے میں سامنے آیا۔سرمایہ داری نے ترقی کرتے کرتے اپنی ساری مالی،سیاسی اور دیگر قوتوں کو یکجا کرکے دنیا کو لوٹنے کے عمل کو تیز،گہرا اور پیچیدہ کرلیا اور سامراج کی شکل اختیار کرلی۔

یہ ایک لحاظ سے مناپولی کی نشونما اور فنانس کپٹل کی برتری تھی۔ پہلے کماڈ ٹیز کی برآمد ہوتی تھی اب اُن کی جگہ کپٹل کی برآمد کو ترقی ہوئی۔انگلینڈ،جرمنی فرانس اور امریکہ کے درمیان استحصال کے لیے دنیا کی تقسیم بیان کر کے لینن نے گویا مارکس کو اپ ٹو ڈیٹ کردیا۔ یہی چار ممالک دنیا کی فائنانس کپٹل کے 80فیصد کے مالک ہیں۔ انہی کے پاس 80فیصد کالونیاں ہیں۔

لینن کی زیرک آنکھوں نے اُسے دیکھ لیا اور اس کی سائنسی دماغ نے اس کا تجزیہ کرنے میں دیر نہ لگائی۔ ایک انتساب دیکھتے ہیں:

”برطانیہ، دُنیا کا ایک بہت امیر،بہت آزاد او ربہت ہی ترقی یافتہ ملک ہے۔ مدتوں سے برطانوی”سماج“ اور برطانوی حکومت پر بھی اسلحہ بندی کا بخار اسی طرح سوار ہے جس طرح کہ فرانس اور جرمنی وغیرہ پر۔ اور اب برطانوی پریس،خصوصاً لیبر پریس،بڑی ہی دلچسپ معلومات شائع کررہا ہے، جو اسلحہ بندی کے عیارانہ سرمایہ دار طریقہِ عمل کو دکھاتی ہیں۔ برطانیہ کی بحری اسلحہ بندی،خاص طور سے زبردست ہے۔ برطانیہ کے جہاز ساز کارخانے(ویکروس، آرم اسٹرونگ اور براؤن وغیرہ) عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ برطانیہ اور دوسرے ملک کروڑوں اوراربوں روبل جنگ کی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب قطعی طور پر ”اَمن کے مفاد میں“،”کلچر کے تحفظ کے مفاد میں“،”وطن اور تہذیب“وغیرہ کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔

”ان جہاز ساز،بارود ساز،ڈائنا مائٹ سازاور توپ ساز کارخانوں کے حصہ داروں اور ڈائریکٹروں میں ہم،امراء اور برطانیہ کی دونوں پارٹیوں یعنی کنزرویٹواور لبرل کے بہت ہی نمایاں ریاستی  کارکنوں کو دیکھتے ہیں۔ بورژوا سیاستدانوں کی جیبوں میں،براہِ راست سونے کی بارش ہورہی ہے۔ انہوں نے لٹُیروں کا ایک مضبوط بین الاقوامی گروہ بنالیا،جو عوام کو اسلحہ بندی کا اشتعال دلاتا رہتا ہے۔ اور ان پر اعتماد رکھنے والے بیوقوف،کُندذہن اور مطیع لوگوں کو بھیڑوں کی طرح مونڈ تا رہتا ہے۔

”اسلحہ سازی کو قومی کام اور حب الوطنی کا کام سمجھا جاتا ہے او ریہ خیال کیا جاتا ہے کہ سب اس کو سختی کے ساتھ راز رکھتے ہیں۔ لیکن جہاز سازی،توپ سازی، ڈائنا مائٹ سازی اور اسلحہ سازی کی فیکٹریاں اور کارخانے بین الاقوامی کارخانے ہوتے ہیں، جن میں مختلف ملکوں کے سرمایہ دار مل کر مختلف ملکوں کی پبلک کو احمق بناتے اور انہیں جونک کی طرح چُوستے ہیں۔ یہ یکساں طو رپر اٹلی کے خلاف برطانیہ کے لئے،یا برطانیہ کے خلاف اٹلی کے لئے جہاز یا توپیں بناتے رہتے ہیں“۔

اس کتاب میں اس نے دکھایا کہ کپٹلزم کا بلند ترین مرحلہ امپیریلزم ہے۔ ایک ایسا مرحلہ جہاں پر یہ پہلے ہی”پروگریسو“کپٹلزم سے ”پیرا سائٹک“کپٹلزم میں ڈھل گیا۔ کپٹلزم زوال پذیر ہوا۔ اور یہ کہ امپیریلزم،قریب المرگ کپٹلزم ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ کپٹلزم خود بخود مرجائے گا، بغیر پرولتاری انقلاب کے، یعنی بس ٹہنی پہ سڑجائے گا۔ لینن نے ہمیشہ سکھایا کہ ورکنگ کلاس کے ایک انقلاب کے بغیر کپٹلزم کا تختہ نہیں الٹا جاسکتا۔ چنانچہ امپیریلزم کو قریب المرگ کپٹلزم کے بطور بیان کرتے ہوئے لینن نے بہ یک وقت بتایا کہ ”امپیرلزم پرولتاریہ کے سماجی انقلاب کا موقع ہے“۔

لینن نے نتیجہ نکالا کہ پرولتاریہ کے لیے امپیریلسٹ محاذ کو ایک جگہ یا کئی جگہوں سے توڑنا ممکن ہے۔ وہ اس بات پہ بھی پہنچا کہ سوشلزم کی فتح پہلے کئی ممالک یا حتی کہ ایک ملک میں ممکن ہے۔ یہ کہ سارے ممالک میں بہ یک وقت سوشلزم کی فتح ناممکن ہے۔ سبب کپٹلزم کی غیر یکساں ترقی ہے۔ اُس نے بتایا  کہ سوشلزم پہلے ایک ملک میں کامیاب ہوگا یا کئی ممالک میں، جبکہ دوسرے ممالک کچھ مزید مدت کے بورژوا ملک ہی رہیں گے۔

دوسرے لفظوں میں  بیسویں صدی کے آغاز میں انقلابیوں کو بہت سے ایسے نئے سولات کا سامنا کرنا پڑا جو کبھی پہلے نہیں اٹھائے  گئے تھے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آیا صرف تنہا ملک میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اُس کا تذکرہ ہم پچھلے صفحات میں کرچکے ہیں۔

ایک دوسرا سوال بھی تھا۔سامراج کی فطرت اور خصلت کے بھر پور مطالعہ کے بعد لینن نے سوشلسٹ انقلاب کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ لینن نے مارکسزم میں یہ بڑا تخلیقی اضافہ کر دیا کہ اب یہ ضروری نہیں کہ مزدوروں کا انقلاب صرف ترقی یافتہ صنعتی ملکوں میں، اور بہ یک وقت کئی ملکوں  میں آئے۔  لینن نے بتایا کہ سامراج  ایک عالمی نظام بن چکا ہے، ایک ایسی قوت جو چند ترقی یافتہ ممالک کے ہاتھوں کالونیوں کو دباسکتی ہے اور مالی طور پر ساری دنیا کو غلام بنا سکتی ہے۔ لہٰذا بقول لینن، سوشلسٹ انقلاب ہر ملک میں صرف بورژوازی کے خلاف وہاں کے پرولتاریہ کی جدوجہد نہ ہو گی بلکہ یہ سامراج کی طرف سے محکوم کردہ ساری غلام اقوام و ممالک کی بین الاقوامی سامراج کے خلاف جدوجہد بھی ہو گی۔ لینن نے سامراجی ممالک کی معاشی و سیاسی میدانوں میں نا برابر ترقی کا قانون دریافت کیا۔ یہ ایک حتمی قانون ہے، اسی وجہ سے سامراجی ممالک کے بیچ آپسی تضاد کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اور ایک دوسرے کے مفادات پر قبضہ کرنے کی اُن کی جدوجہد کبھی ختم نہ ہو گی۔ پرولتاریہ انہی تضادات سے فائدہ اٹھا کر سامراج کو کسی ایک یا دوسرے ملک میں شکست دے سکتا ہے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ انقلاب ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہی آ جائے، جہاں پرولتاریہ بڑی تعداد میں موجود ہو۔ بلکہ یہ کسی بھی ایسی جگہ آسکتا ہے جہاں سامراج کی زنجیر کی سب سے کمزور کڑی واقع ہو۔  یہ بھی ضروری نہیں کہ انقلاب کئی ملکوں میں بہ یک وقت آجائے۔ یہ صرف ایک ملک میں آ بھی سکتا ہے  اور وہاں قائم بھی رہ سکتا ہے۔

***

اِس کے علاوہ 1916میں اُس نے دیگر شاندار مضامین لکھے، مثلاً: ”امپیریلزم اور سوشلزم کی تقسیم“،”ترکِ اسلحہ کا نعرہ“۔(16)۔

***

طویل جنگ نے روس کو برباد کر کے رکھ دیا۔ ملینوں لوگ اِس میں مارے گئے۔ جنگ صرف توپ گولی کا نام نہیں ہوتی۔ جنگ میں زخم، وبائیں،اور بھوک بھی مارتی ہے۔ بورژوازی اور زمیندار اور پادری اور جادوگر تو جنگ سے دولت کما رہے تھے مگر مزدور کسان فاقوں اور مشکلات میں گردن گردن گڑھے ہوئے تھے۔ فیکڑیاں بند ہورہی تھیں۔ عوام اور سپاہ بھوکی تھی،ننگی تھی اور  ننگے پیر تھی۔ جنگ ملک کے وسائل کو کھا رہی تھی۔

کچھ وزیر اور فوج کے جرنیل جرمنی کی خفیہ مدد کر رہے تھے۔ خود ملکہ جوکہ جرمن نژاد تھی فوجی راز جرمنوں کو دے رہی تھی۔ اسی وجہ سے روسی بادشاہی فوجیں پسپائی اختیار کرتی جارہی تھیں۔ 1916تک جرمن پہلے ہی پولینڈ اور کچھ دیگر صوبوں کے حصوں پر قبضہ کرچکے تھے۔

ایک طرف محاذِ جنگ میں شکست پر شکست ہو رہی تھی تو دوسری طرف ملک کے اندر انتشار بڑھتا جارہا تھا۔ 1917کی سردیوں میں دونوں بڑے شہروں ماسکو اور پٹروگراڈ میں غذا، کوئلہ اور خام مال کا پہنچنا تقریباً تقریباً بند ہوگیا۔

یہ سب مل کر روسی عوام میں بادشاہ کے خلاف نفرت اور غصہ بڑھا رہے تھے۔ کیا مزدور، کیا کسان سپاہی اور دانشور سب کی ناراضگی میں انقلابی تحریک مضبوط ہوتی جارہی تھی، لوگ جنگ کے خلاف ہوتے جارہے تھے۔ خود روسی بورژوازی بھی عدم اطمینان میں مبتلا ہورہی تھی۔ اس لیے کہ زار بادشاہ کامیاب جنگ لڑنے کے اہل ہی نہ تھا۔ بالخصوص دربار کے سب سے بڑے اور بااثر فرد راسپوٹین کی سازشوں سے ہر شخص تنگ تھا۔ روسی بورژوازی نے  محلاتی سازش کے ذریعے بادشاہ کو معزول کرنے اور اس کی جگہ اس کے بھائی کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

مگر عوام نے ایک اور ہی فیصلہ کرنا تھا۔

 

 

ریفرنسز

 

۔Borصفحہ148

۔Borصفحہ149

۔سروس، رابرٹ۔ لینن، اے پولٹیکل لائف۔جلد دوئم۔ صفحہ49

۔سروس، رابرٹ۔ لینن، اے پولٹیکل لائف۔ جلد دوئم۔صفحہ 50۔

۔ کروپسکایا۔ ن۔1930۔ Memories of Lenin۔انڈیا پبلشرز۔ صفحہ97۔

۔ کروپسکایا، این۔Memories of lenin۔1930۔ انڈیا پبلشرز یونیورسٹی روڈالہ آباد۔ صفحہ97۔

۔لینن۔ مجموعہ تصانیف، انگلش۔ جلد18صفحہ66

۔ولسن۔ صفحہ448

۔لینن، 1915-1914۔ سیکنڈ ایڈیشن، جلد 18۔ صفحہ 55

۔دی لائف آف لینن۔ صفحہ92

۔کروپسکایا۔ پاپولر ایجوکیشن اینڈ ڈیموکریسی۔ صفحہVI

۔Sw2۔ صفحہ3

او بیچکین اور دوسرے۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو             صفحہ نمبر133

او بیچکین اور دوسرے۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو             صفحہ نمبر138

۔ لینن۔ اے بایو گرافی۔ صفحہ169

۔ ایضاً۔ صفحہ177

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے