کھمبیوں کو چھوکر آتی ہوا

جب نؤں کوٹ کے قلعے کے پاس

ماضی کی مہک ساتھ لیکر

قلعے کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو

اس وقت کوئی انوکھی بات

فضاؤں میں گردش کرنے لگتی ہے

قلعے بھی ان کہی داستانوں

کے امین ہوتے ہیں

جن میں ادھوری بات کا سحر

بیساختہ رقص کرنے لگتا ہے

کھوئے لمحے بے اختیار

گہری تنہائی میں ڈوبی

بات کا زہر اپنے اندر انڈیل کر

آسمان کو تکنے لگتے ہیں

جہاں ایک اور نامکمل

بات کا گواہ چاند

اداسی سے قلعے کی

دیواروں کو تکتا ہے خاموشی کیساتھ!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے