دل کیوں کسی کو دیجیے قیمت توہے نہیں

دنیا کو ایسی شے کی ضرورت توہے نہیں

 

آنکھوں کا خواب ہے یہ حقیقت توہے نہیں

ہاتھوں کو چومنے کی اجازت  تو ہے نہیں

 

ناجانے کس مقام پہ یہ ربط ٹوٹ جائے

مابین دوستوں کے محبت تو ہے نہیں

 

اے عشقِ یار کس کی نظر کھا گئی تجھے

وہ جوش وہ جوانی وہ طاقت توہے نہیں

 

میں کیسے مان جاؤں تمھاری کرامتیں

تجھ کو نماز پڑھنے کی فرصت تو ہے نہیں

 

ہر ایک سے بڑھاؤ نہ یوں دوستی کا ہاتھ

یہ دوستی ہے کوئی عبادت توہے نہیں

 

مظہر کیوں اپنی جان کھپاتے ہو مفت میں

یہ شاعری ذریعہ ِعزت توہے نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے