ایک عجیب خواب سے جاگ جاگ جاتا ہوں

آئینوں کے گھر میں، آئینوں کے شہر میں

اپنے نام کا اک آئینہ جو پاتا ہوں

یہ عکس سارے میرے ہیں یا میں بھی ایک عکس ہوں

سایہ ہوں، خیال ہوں یا میں دوسرا ہی شخص ہوں

دِکھ رہے ہیں ایک سے سارے اور ایک ہی منظر دکھا رہے ہیں

یہ سارے ایک سمت کیوں دوڑے جا رہے ہیں

ہنس رہے ہیں دیکھو سارے ایک ہی بات پر

چونک چونک اٹھتے ہیں ہر نئی آہٹ پر

یہ منظر بھر رہا ہے کون، کون آئینہ خانہ چلا رہا ہے

آئینے میں جو خیال اْبھرا ہے یہ خیال کون بنا رہا ہے

کون آوازیں بْن رہا ہے کون بازگشت بنا رہا ہے

یہ نیا ٹرینڈ کون چلا رہا ہے، اس کے پیچھے کون چلا آ رہا ہے

یہ بوڑھا سوداگر جو قصہ سْنا رہا ہے

اس میں کچھ نیا رہا ہے؟

یہ دانش گرد راہ بھی کوئی دکھا رہا ہے یا صرف پٹاری ہلا رہا ہے

ٹرینڈ جب چلائے گا دانش کہاں سے لائے گا

نمبر ہی بڑھائے گا

آئینوں کے شہر میں یہ آئینہ دکھائے گا؟

سایوں کی دنیا ہے نمبروں سے چلتی ہے

لائیکس اور کمنٹس کا خون پی کے پلتی ہے

ہم آئینوں میں جب اپنا چہرہ صاف کرتے ہیں کچھ پیٹرن سے بنتے ہیں

یہ پیٹرن ہی بکتے ہیں، یہ پیٹرن ہی چلتے ہیں

سمجھتے ہیں ہم نے پا لی آزادی

خیال کی آزادی ہے خیالی آزادی

زبان کسی اور کی بیان کسی اور کا

منہ ہی چلا رہے ہیں

اس جگالی کی ہم نے بنا لی آزادی

ہم کنزیومر اپنے وجود کے ہیں جو وجود صرف شہود کے ہیں

آئینوں میں جانے ہم کیسی مارکیٹنگ کرتے ہیں

ہم میں کچھ تو سپیکر ہیں جو آواز کسی اور کی سناتے ہیں

باقی سب وولیم ہی بڑھاتے ہیں

کیا کوئی نتشے آئے گا مژدہ سنائے گا اور دْکھ سے مر جائے گا

انسان مرچکا ہے اور ہم نے اس کی فوٹو کاپیاں کروا لی ہیں

ان آئینوں پہ پہلا پتھر کون اٹھائے گا

یہ پتھر کہاں سے آئے گا

یہ شہرِِ سحر کون مٹائے گا

کب مارکیٹ میں اس سے بڑا جن آئے گا

آئینوں کی دنیا سے باہر نکل بھی پائیں گے

یہ نظام ہم کبھی بدل بھی پائیں گے

میری اس نظم پر آخر کتنے لائکس آئیں گے

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے