رحمان صاحب! جو کچھ آپ نے لکھا

اتنا تو فرشتے بھی نہ لکھ سکے ہوں گے

وہ تو لوگوں کے گناہ و ثواب لکھتے ہیں

اور آپ ان کی داستان لکھتے تھے

جن کو نہ قلم بردوش صحافی لکھتے تھے

اور نہ مسجدوں میں خطبہ دینے والے

آپ کبھی کبھی خدا کی آواز بن کر

ہمارے نام کے مسلمان لوگوں اور ملکوں کو

عاقبت کا خوف نہیں دلاتے تھے

ان کی بد گوئی، بدمعاشی اور بدحاکمیت کے

زہر ہلا ہل کو اقبال کی طرح قند نہیں کہہ سکتے تھے

ساری عمر آپ کے ایک ہاتھ میں قلم

اور ایک ہاتھ میں ٹائپ رائٹر ہوتا تھا

درویش نہیں تھے، صوفی نہیں تھے

اس زمین کے انسان تھے

آپ ناپرسوں کے آنگنوں میں جھانکتے

مگر اُن کو رسوانہ کرتے تھے

سوچ کے پاتال میں اترنے کے باوجود

کبھی خورشید ہاتھ میں لے کر چلنے کی خواہش نہیں کی

ڈھول پیٹنے والوں کا ذکربھی ناروا سمجھتے تھے

ابھی تو ہم دن بدلنے کی امید میں تھے

آپ نے اس کو بھی فریب سمجھا اور چلے گئے!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے