سامراجی ملک برطانیہ کی طرف سے بلوچستان کی زبردست لوٹ کھسوٹ کی گئی۔پھر، اُس کے پروردہ دیسی فیوڈل حکمرانوں نے بھی ایسی بے درد لوٹ مچائی کی جس کی مثال اس سے قبل موجود نہ تھی۔ ہم پہ بہت بنیاد پرست، نسل پرست اور سفاک حکمران مسلط رہے۔برطانوی سامراج نے تسلسل کے ساتھ اپنا اثرورسوخ بڑھائے رکھا۔اس نے  فوجی چھاؤنیاں بنائیں اور تجارتی راستوں کو محفوظ کیا۔ ان سب کا مقصد ہمیں محتاج یا نیم محتاج کالونی بنانا تھا۔

مگر، ان کا بلوچستان میں بھر پور طور پر کپٹلزم قائم کرنے کا ارادہ ہی نہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے یہاں فیوڈلزم کو بالکل نہیں چھیڑا۔ بلکہ الٹا اُسے مضبوط کیا۔وہ ہمارے ہاں شہری مراکزکھولنے کے سخت مخالف تھے۔ حالانکہ کپٹلزم تو شہر کے دسترخوان پرپلتا بڑھتا ہے۔ کپٹلزم دیہات کا دشمن ہوتا ہے، دیہات کی سُستی کا قاتل  ہوتا ہے۔ کپٹلزم، ”دیکھا جائے گا“ کے تصور کاگلا گھونٹنے والا ہوتا ہے۔ الغرض کپٹلزم سارے دیہی کلچر، اقوال اور طرزِ زندگی کا دشمن ہوتا ہے۔ کپٹلزم تو سردار،سردار کے ٹیکس، اس کی عدالت، اس کی جیل اور اس میں موجود  اذیتی اوزار،سب کا بیڑہ غرق کرتا ہے۔

مگربلوچستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہاں کپٹلزم نے فیوڈلزم تو چھوڑیے، پری فیوڈلزم سے مصالحت کر لی۔ انگریز نے بلوچ سرداروں کے مفادات کو جوں کا توں رکھا۔ کمال ہنر مندی سے خود ہی سرداروں کی لڑائی خانِ کلات سے کروادی۔ اور پھر خود ہی ثالث بنا۔ اور گرینڈ معاہدے کروائے۔ یعنی اب بلوچستان کے روایتی حکمران طبقات میں انگریز بھی شامل ہوگیا۔ یوں اب انگریز، قبائلی اشرافیہ،قبائلی سربراہ، جام، نواب اور خان ِ کلات پہ ِ مشتمل گینگ ہم پہ حکمرانی کرنے لگا۔ سب عوام دشمن طبقات!!۔

اور پھر ہماری غیرت مند اور پاک سامراج دشمن جنگوں نے بھٹہ بٹھا دیا۔ پیداواری قوتیں یوں تباہ ہوئیں کہ گھر جلے، فصلیں تباہ ہوئیں، لوگ قتل ہوئے۔ مائیگریشنز ہوئے۔غربت وپسماندگی مزید بڑھی۔

بلوچستان سے متعلق انگریز کی ساری پالیسی کے پانچ نکات تھے۔1۔ بادشاہی روس کو اِس طرف نہ آنے دینا۔2۔بلوچستان کوخام مال سپلائی کرنے والا علاقہ ہی رکھنا۔3۔بلوچستان پہ اپنا تیار مال بیچنا(ایک تو مہنگا بیچتے تھے۔ دوسرا اس سے ہمارے مقامی دستکار برباد ہوگئے)۔ 4۔ بلوچستان کو تجارتی روٹ رکھنا۔5۔بلوچستان کو روایتی قوتوں کے ماتحت پسماندہ اور غریب رکھنا۔

یہ سب کچھ کرنے کے لیے اُس کے پاس اچھا خاصا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔ اُسے اندازہ ہوا کہ ایسا صرف اُس وقت ممکن ہوگا کہ محض کچھ علاقوں پر ڈائریکٹ حکمرانی کی جائے اور بقیہ بلوچستان کو قبائلی روایتی نظام کے ساتھ کنٹرول رکھا جائے۔ یعنی کچھ جگہوں پہ حکمرانی کرتے ہوئے سارے بلوچستان پہ اثر رکھا جائے۔ لہذا پہلے پہل تو اس نے بلوچستان کو ٹکڑے ٹکڑے  کر کے ایران، سندھ، پنجاب اور افغانستان میں ڈال دیا۔ اور پھر بقیہ بلوچستان کو تین حصوں میں بانٹ دیا: (1)برٹش بلوچستان،(2) ایجنسی اور (3)کلات۔ ایجنسی کے علاقوں کو سرداروں کے کالونیل انتظامیہ کے ذریعے چلانا تھا۔ اور کلات (جہلاوان، ساراوان، مکران، خاران اور لسبیلہ)کو خان کلات کے ذریعے فیوڈل بادشاہی کالونیل ڈھانچے کے ذریعے چلایا جانا تھا۔ یوں کسی بھی مشترک بلوچ،مزاحمت کو پنپنے نہ دیا جائے۔

برٹش بلوچستان اور ایجنسی کے علاقوں پر اسسٹنٹ ٹو گورنر جنرل (اے جی جی) براہ راست حکومت کرتا تھا۔اے جی جی کے نیچے کمشنر ہوتا تھا۔اور کمشنر کے نیچے ضلع میں پولٹیکل ایجنٹ ہوتا تھا۔ اور ہر پولٹیکل ایجنٹ(پی اے) آل اِن آل ہوتا تھا اور کولونیل آرمی اُس کی کمان میں ہوتی تھی۔

ریاستی (کلاتی)بلوچستان کوگو کہ خان چلاتا تھا مگر آہستہ آہستہ اُس کے اختیارات کم ہوتے گئے اور انگریز کے مقرر کردہ پولٹیکل ایجنٹ کے اختیارات بڑھتے رہے۔انتظامیہ فیوڈل، کالونیل اور قبائلی ارسٹوکریسی کا ہوتا تھا۔ یہی دراصل ”سنڈیمن کالونیل رولنگ سسٹم“ تھا۔ یعنی انگریز حکمرانی تو کرتا تھا مگر براہِ راست نہیں بلکہ حکمران فیوڈل بالائی طبقہ کے ذریعے، حکمرانی کرتا تھا۔یعنی خان،سردار، میر، معتبر، جام،اور نواب کے ذریعے۔ انگریز انہیں مراعات دے کر کرپٹ کرتا تھا۔ اس نے اُن کی سماجی حیثیت بحال رکھی۔ انہیں زمینیں دیں، انعامات، اعزازات، اور خلعتیں دیں۔ نواب، سر، خان بہادر، سی آئی ای، سی ایس آئی، سی بی ای، بیگلر بیگی سب وہ اعزازات و خطابات تھے جو بالائی حکمران طبقات کے لوگوں کو دیے جاتے تھے۔ ان اعزازات کے ساتھ نقد پیسے بھی ہوتے تھے۔

برطانوی وفاداروں کو انعامات اور اعزازات کے بطور بھی زمین دینی شروع ہوئی۔ نوابوں اور جاگیرداروں کو زرعی ٹیکس میں بھی زبردست رعایتیں دی گئیں۔

اُن کی زمینوں پہ مالیہ اور دیگر ٹیکسوں پہ رعایت ہوتی تھی۔اور دوسری منافع بخش عنایتیں نتھی ہوتی تھیں۔

انگریز نے لیوی سسٹم قائم کر کے اس کی رسالداری سردار کو دے دی۔ لیوی سپاہیوں کی تنخوا ہیں بھی سردار کودی جاتی تھیں۔وہ جتنا چاہتا آگے سپاہی کو دے دیتا۔ اور بقیہ پیسہ جیب میں رکھتا تھا۔ اس کوسردار کا  ”کاٹ“ کہتے تھے۔ یہ لیوی سپاہیوں پرسردار کا گویا ایک قانونی ٹیکس ہوتا تھا۔  اب سردار کو عام بلوچ کو گرفتارکرنے کے اختیار بھی مل گئے اور گرفتار کرنے کے لیے لیوی کے سپاہی بھی مل گئے۔ سماج  میں اب ایک طرف انگریز افسر اور اس کے اعزاز یافتہ سردار اور میر تھے اور  دوسری طرف محنت کرنے والے عام انسان یعنی، خانہ بدوش، چرواہے، کسان، ماہی گیر۔

مقصد یہ تھا کہ بلوچ اپنی قوم سے بے وفا ہوجائیں، ترقی و ارتقائی کی بات بھول جائیں،اورقبائلی نظام مضبوط رہے۔ انگریز نے بلوچستان کے سرداروں کو اس قدر پالتو بنالیا کہ وہ عملی طور پر انگریز کے مشیر و ایجنٹ بن کر رہ گئے۔ انگریز اُن سے یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے اپنے قبیلے میں امن رکھیں،انگریز کے لیے ریونیو، ٹیکس اور جرمانوں کی وصولی کریں، سامراج دشمنی اور مزاحمت پہ کڑی نظر رکھیں اور اسے پنپنے نہ دیں۔

اس ساری انتظام کاری کانتیجہ یہ نکلا کہ پیداواری قوتوں کی بڑھوتری باقاعدہ رک گئی،یارکنے کی حد تک سست رفتار ہوگئی۔

یوں،عام آدمی قوم بننے کے بجائے قبائلی ہی رہا۔ وہ اپنی قبائلی بنیاد پر فخر کرنے لگا، اور دوسرے قبیلے والے کو نیچ سمجھنے لگا۔ اسے ایسے الجھا وے میں الجھا دیا گیا کہ انگریز کی بادشاہی سے ہر خطرہ ٹل گیا۔

عوام کے لیے غلامی تین تہوں میں تھی:

۔ 1۔خان اور اس کی انتظامیہ پہلی استحصالی قوت بنی۔

۔ 2۔سردار اور لیویز دوسری استحصالی قوت

۔ 3۔ برطانیہ(اپنے ملٹری آپریشنوں، ٹیکسوں اورجرمانوں کے نفاد کے ساتھ)تیسری استحصالی قوت۔

انگریز نے رجعتی کالونیل قوانین کا ایک پیکج بنام ایف سی آر 1901میں جاری کیا۔

یہی قانون بعد میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان نے بھی جاری رکھا۔ ایف سی آر کا مطلب تھا: فرنٹیر کرائمز ریگولیشن۔یہ رجعتی، کالونیل، اور بے درد قانون برطانوی امپیریلزم کے اہم مفادات کا محافظ تھا۔ یہ وڈیروں اور دیگر فیوڈل کالونیل عناصر کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا۔اس قانون نے برطانیہ کو کسی بھی مسلح بغاوت کو کچلنے، کا حق دے دیا۔ ایف سی آر میں برطانیہ اور اس کے مقامی حواریوں کے خلاف سیاسی سرگرمیوں پہ کو سزا دینے کی مکمل اتھارٹی دے رکھی تھی۔ اس نے عوام کی زمین،اور اُن کی شخصی جائیداد ضبط کرنے کو قانونی بنادیا اور اجتماعی جرمانے لگانے کی اجازت دے ڈالی۔ چنانچہ کاشتکاروں، خانہ بدوش قبائلی چرواہوں،اور محنت کش عوام کو سیدھا  پولٹیکل ایجنٹ کے آئینی اقتدار کے تحت کردیا۔ درمیان میں نام نہاد اور نامزد”جرگہ“ کو ڈال دیا گیا۔ اس قانون کے تحت کالونیل آباد کاری کے قریب کوئی مقامی شخص آبادی نہیں بنا سکتا تھا۔سرکار کے خلاف  سازش کی تیاری کے محض شک کے اوپر پورے قبیلے یا پوری آبادی کو آگ لگائی جاسکتی تھی۔ تباہ کیا جاسکتا  تھا، قبضہ کیا جاسکتا تھا۔

یاد رہے کہ بیس ویں صدی کی ابتدا کپٹلزم کے امپیریلزم میں داخل ہونے کا زمانہ ہے۔ مگر بلوچستان میں فرسودہ سرداری فیوڈل نظام سے باہر نکلنے کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔

عوام الناس کواُن کے بنیادی پیداواری و سائل سے محروم کیا گیا۔ بھاری ٹیکس لگا دیے گئے۔ چیف کو اچھی چراگاہیں اور زرعی زمینیں دی گئیں، بقیہ چراگاہوں پر اپنے اتحادی (سرداروں) کے ذریعے ٹیکس لگائے گئے۔ دستکاروں کو تباہ کیا گیا، خانہ بدوش ریوڑ مالکان پہ ٹیکس لگائے گئے۔ یوں انہیں روزانہ والے مزدووں میں بدل دیا گیا۔ یا پھر کھیت مزدوروں میں۔ چونکہ دیہات میں صنعت نہ تھی لہذا یہ دستکارسندھ اور پنجاب کے زیادہ ترقی یافتہ علاقوں کی طرف مائیگریٹ کرنے پر مجبور تھے۔

بلوچستان میں کنٹرولڈ اور بالکل ضروری کپٹل ازم ہزار میل طویل ریلوے لائن بچھانے، تیل،کوئلہ اور کروم کی معدنیات کھودنے،اور نصیر آباد کے علاقوں میں اریگیشن سسٹم قائم کرکے کپاس اور دیگر کیش فصلوں کو پیدا کرنے سے شروع ہوا۔ کپاس برٹش انڈیا میں قائم ٹکسٹائل ملوں کو جاتا تھا، کروم برطانوی وارانڈ سٹری میں جاتا تھا (اس لیے تو بوستان سے مسلم باغ تک ریلوے لائن بچھی۔ ایک بار تو 2ملین ٹن کروم نکالا گیا)۔(1)

چنانچہ بلوچستان metropolitan برطانیہ کوخام مال سپلائی کرنے والا خطہ بنا۔ اس طرح برطانوی کپٹل کی حکمرانی کو بلوچستان کے اندر روایتی قبائلی و فیوڈل نظام سے مضبوطی سے جوڑ دیا گیا۔ پسماندہ ہی سہی، مگر اب بلوچستان کی تاریخ کپٹلزم کی تاریخ بن گئی۔ اب تک  (1901-1903) زمین کا بڑا حصہ چھوٹے کاشتکار خود آباد کرتے تھے (صرف ریاستی زمین، یا نواب خاران، نواب مکران، جام لسبیلہ اور خان فیملی کی زمینیں غلام زادے، بزگر، اور اجرت والے کسان آباد کرتے تھے۔ مگر 1931میں اجرت والے کسانوں کا تناسب30فیصد ہوگیا تھا۔ ٹیکس لگا لگا کر  چھوٹے کاشتکاروں کی کمر توڑ دی گئی اور زمین اب امپیریلسٹ کالونیل ملکیت میں جاتی رہی۔ گنگوفسکی سبی میں 1879کے اندر ٹیکس بڑھنے کی شرح82فیصد بتاتا ہے۔ اور کوئٹہ علاقے میں تو یہ 1890تک 350فیصد بڑھ چکی تھی(2)۔ (کون کہتا ہے کہ برطانیہ محض روس روکنے بلوچستان آیا تھا)۔

لیز پر لیے ہوئے علاقوں کی زمین  ویسے ہی برطانیہ کی ہوگئی۔ برطانیہ نے صرف سٹیٹ لینڈز قبضہ نہیں کیا، یا صرف قبائلی زمین ہتھیا نہیں لی بلکہ اس نے تو ماہی گیروں اور دستکاروں سے اُن کے گزارے کے ذرائع بھی چھین لیے۔ اورساری”کمیونٹی فش پروڈیو سرز“کو ماہی گیر مزدوروں میں بدل دیا۔یوں ساحل سمندر پہ خوجہ، میمن،اور آغا خانی سرمایہ دار انگریز کپٹل سے جُڑ کر مچھلی کی بُو میں منافع کی ”خوشبو“ سونگھ ر ہے تھے۔

لوگوں کی مصیبتیں بہت بڑھیں۔ طبقاتی، قومی جبر بڑھ گیا۔بے زمینوں کے پاس خود کو یعنی اپنی محنت کو بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لوگ مزارع، اورروزانہ اجرت کے مزدوروں میں تبدیل ہوئے، یا انہوں نے روزگار کی تلا ش میں شہروں قصبوں کا رخ کیا۔ زمینوں پربرطانیہ خود قابض تھا یا پھر قبائلی کالونیل اشرافیہ۔

ریلوے لائن بچھی مگر سستا مزدورباہر سے لایا گیا۔ مطلب یہ کہ کالونیل پیریڈ کمیونل کاشتکاری سے بدل کر پرائیویٹ فیوڈل ازم میں ڈھلا۔ اور ابتدائی کپٹلزم جاگزیں ہونے کے سبب شہری آبادیاں،کرائے کے کسان،اور روزانہ اجرت کے مزدور بڑھتے گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ جدید مغربی کالونیل حکمرانی لایا، آرمی، پولیس اور جاسوسی ادارے بنے، ریلوے، فیکڑیاں اور تجارت آئی۔

 

ریفرنسز

۔عثمان بریگیڈیئر۔ ”بلوچستان“ لاہور۔ 1984۔ صفحہ590

۔یوری گنگوفسکی The people of

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے