بڑے شہر کی عمر رسیدہ متمول تنہا عورتیں

متروک پرانی حبس زدہ حویلیوں کی مانند

اپنے سنسان بدن لیے

تازہ ہوا کے لالچ میں

تنہائیوں کی بالکونیوں پر لٹکی رہتی ہیں۔

پرندے جن کے آشیا نوں سے اڑ چکے ہیں

سایئں سایئں کر رہے ہیں دل کے خالی مکان

ترستے ہیں کسی موہوم نے سی آہٹ کو

مدتوں سے لٹک رہے ہیں الگنی پر سوکھے کپڑے

آکے انہیں اتار لے

فراموشی کے سورج کی  جھلسا دینے والی تپش کوئی

کب تک برداشت کرسکتا ہے

گزرے زمانوں میں

چھتوں پر لگے لوہے کے انٹینا

کیسی رنگ برنگی جادوئی لہریں پکڑ لیا کرتے تھے

اوارہ گرد کوا آکر بیٹھ جاتا تو اسے

خوش رنگ خوش گلو پرندہ سمجھ لیا جاتا تھا

پر کوے تو کمینے ہوتے ہیں

چھین کے روٹی کا ٹکڑا اڑ جاتے ہیں

پیچھے رہ جاتی ہیں خالی حویلیاں

اور تنہا عورتیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے