ماہنامہ سنگت اگست 2021ء کا شمارہ  ہمارے زیرِ نظر ہے۔

سنگت کا ٹائٹل Artisticہے۔امید ہے،روشنی کی کرن ہے، اندھیرے میں روشنی کا پیامبر۔ رسالے کے انر ٹائٹل پر ہمارے وطن دوست شاعر محترم مبارک قاضی کی غزل ہے۔

”قاضی ہر چی کنت وتی قدّا کرزیت“

رسالے کا شونگال(اداریہ) ”عوام باشعور اور وفادار ہوتے ہیں“ عثمان کاکڑ کی شہادت کے حوالے سے ہے۔ جس میں اس کی جمہوری پارلیمانی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ تو دوسری طرف افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس اداریے سے لے کر اب تک افغانستان میں بہت کچھ ہوگیا ہے جس پر ہر صاحب رائے کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے جام درک کی شاعری اور شخصیت کو جس طرح اپنے قلم سے رنگین بنایا ہے وہ دلوں میں اتر جاتا ہے۔ مثلاً ترانوں، غزلوں کی غزل، نگینہ شاعری، جس کی جلائی ہوئی آگ کی راکھ مست توکلی جیسے شاعر پھونکتے رہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے جام درک کی شاعری کو اس انداز میں پیش کیا ہے جس کا اندازہ صرف دل سے پڑھنے والے ہی لگا سکتے ہیں۔ بلوچی کا یہ شاعر نوری نصیر خان کے عہد کا شاعر ہے۔ مگر اس نے خانوں کے قصیدے نہیں لکھے۔ جام درک کی شاعری محبت کی شاعری ہے، پڑھنے اور سننے والوں کے دل و دماغ پر اثر کرنے والی شاعری ہے۔ جام درک پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اور اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مری نے سنگت میں جام درک پر اپنی تحریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ جو اس ساری کمی کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ یہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنے شاعروں، فنکاروں اور ادیبوں پر مزید کام کے لیے ایک حوصلہ افزا سلسلہ ہے۔

 

تو چودھویں کاچاند، میں تیرا گرہن

تو مہرِ نیم روز، میں تیرا گرہن

پروفیسر شاہ محمد مری کا مضمون ”سمو محبت سے پہلے“ سمو کی زندگی پر ایک جامع تحریر ہے۔ جس نے تؤکلی کو مست بنا دیا۔ 10.15کلومیٹر کے فاصلے پر سمو اور مست کے ذہن و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ماوند میں ایک ایسا انسان جنم لے گا جو دونوں کی داستان محبت پر تحقیق و تحریر کر کے لازوال بنا دے گا۔

شان گل کا مضمون ”پہلی سامراجی جنگ اور لینن“1913ء سے لے کر اپریل1917ء تک لینن اور بالشویک پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں اور لینن کے نظریات کو پیش کرتا ہے۔ لینن نے سامراجیت کا نظریہ پیش کیا جس سے سامراج دشمن تحریکوں نے جنم لیا۔ لینن نے یہاں پر قومی مسئلے پر مضامین لکھے۔ جس میں قوموں کا حق خود مختاریت اور حق علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف اس  نے شاونزم کی مذمت کی۔ اس تحریر میں پہلی جنگ عظیم میں دو واضح سامراجی بلاکوں، ایک کی قیادت جرمنی دوسرے کی برطانیہ کر رہا تھا، کے درمیان جنگ کے حالات بتائے گئے تھے۔ اس جنگ کے دوران لینن کی زیر قیادت بالشویک پارٹی نے نومبر1917میں انقلاب برپا کیا۔ اس حوالے سے شان گل کی یہ معلوماتی تحریر ہے جسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔

مصباح نوید کی تحریر ’نکتہ چین راہب“ گورکی کی نانی کی سنائی گئی لوک کہانیوں سے ایک کا انتخاب ہے جو اس نے گورکی کو سنائی تھی۔اور گورکی کے ذہن میں ہمیشہ ان کہانیوں کا پس منظر رہتا تھا اور اس کے ناول اور کہانی نگاری میں ان لوک کہانیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

اگلی تحریر”انگریز کے خلاف بلوچ مسلح جدوجہد ہے“‘ اس میں انگریز سامراج کے خلاف بلوچوں کی بہادرانہ تحریکِ مزاحمت بیان کی گئی ہے۔

اس میں پوہ زانت، سنڈے پارٹی رپورٹ عابد میر کی تحریر ہے، جو تفصیل سے لکھی گئی ہے۔

ڈاکٹر منیر رئیسانی نے عابدہ رحمان کی کتاب ”جو پڑھا افسانہ تھا“ پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے۔ ان افسانوں میں زندگی کے پہلوؤں کو بہت بہادری کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ جس میں سماجی نا انصافی، بھوک، دکھ، درد، صنفی امتیاز، موضوع قلم ہیں۔ ”محبت ہی وہ کسوٹی ہے کہ جو گناہ و ثواب، خالص و ناخالص کا فیصلہ کرتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ صرف جسمانی ہوتی ہے۔ نہیں۔۔۔۔ جذباتی، ذہنی لوٹ کھسوٹ بھی ہوتی ہے۔۔۔ شام ہوتے ہی تنہائی کہاں سے نکل آتی ہے۔ اور پھر غم زدہ ریت پر وہ جان لیوا رقص کرتی ہے کہ بدن کا ذر ذرہ دکھ جاتا ہے۔۔۔

فہمیدہ ریاض نے اپنی پوری زندگی ظلم و جبر کے خلاف قلمی اور عملی جنگ کی۔ جس کی پاداش میں ضیائی دور میں جلا وطنی اور دیگر تکالیف سے گزری۔ لیکن اس نے جابر قوتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔

اس کی شاعری، تحریروں اور اس کی شخصیت کا اندازہ سنگت رسالے میں ان کی تحریر ”قلبِ عرب کی روشنی“ نجیب محفوظ کے ناول”’افراح لقبہ“ کا ترجمہ کرتے وقت اپنی مشکلات اور نجیب محفوظ کے فن و ناول نگاری اور اس کے نظریات کا احاطہ کیا کیا ہے۔ نجیب محفوظ نوبل انعام یافتہ ادیب ہے۔ جو بیک وقت جمال عبدالناصر اور اسرائیل جنگ کا مخالفت تھا۔ جمال ناصر کا دور، نجیب کے مطابق ایک غیر جمہوری دور تھا۔ جس میں لکھنے پڑھنے اور بولنے کی آزادی نہیں تھی۔

علاوہ ازیں رسالے میں مصباح نوید کا افسانہ ”بابا پیر کی جوئیں“، سبین علی کا افسانہ ”کھڑکی“ محمد طارق کا افسانہ”دو وقت کی روٹی“ بہت زیادہ دلچسپ افسانے ہیں۔ فاطمہ حسن، کشور ناہید، علی زیوف مظہر حسین و دیگر کی خوبصورت شاعری بھی شامل ہے۔

سلمیٰ جیلانی کا مختصر مضمون افسانے، جسے انگریزی میں Mirco Fictionکہاجاتا ہے، پر خوبصورت علمی بحث کی ہے اور جابجا اس کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

”بیک ٹائٹل پر افتخار عارف کی خوب صورت شاعری ہے۔ جس پر میں اپنے تبصرے کا اختتام کرتا ہوں۔

شام آدھی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا

تم  اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے