وہ میرے دفتر کا پہلا دن تھا۔ حادثہ کچھ اتنا عجیب وغریب اور غیر متوقع تھا کہ میں کچھ دیر کے لیے ششدرہ گیا۔ بات اتنی اہم اور سنگین بھی نہ تھی میں پہلے کچھ سوچ لیتا۔اگر دفتری زندگی کا پہلے سے کچھ تجربہ ہوتا تو شاید بات یوں نہ بگڑتی کہ مجھے گھنٹوں منہ پھاڑے ٹک ٹک دیدم کی تصویر بن جانا پڑتا۔ اسٹیبلشمنٹ برانچ سے پوسٹنگ آرڈر حاصل کرنے میں خاصی دیر ہوگئی تھی۔ چونکہ مجھے اسی روز اپنی برانچ میں پہنچ کر رپورٹ کرنی تھی اس لیے وہاں سے سیدھے میکلوڑو ڈ روانہ ہوگیا۔ جہاں میرا نیا دفتر تھا۔ میکلوڈروڈ کے ایک چورا ہے پر بائیں جانب ایک تنگ سی گلی تھی۔ گلی کا نام شاید کراچی کے کسی مرحوم تاجر یا صنعت کار کے نام پر تھاکوچہ حاجی امیر علی سوڈا واٹر والا۔مرحوم زندگی میں یقینا ایک کا میاب تاجر رہے ہوں گے، کیونکہ مرنے سے قبل انہوں نے گلی کی تعمیر اور گلی کے اندر ایک وقف شدہ عمارت پر لاکھ دو لاکھ کے اخراجات برداشت کر کے اللہ میاں سے بھی سودے بازی کی کوشش کر ڈالی تھی۔ پتا نہیں وہ اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے تھے، البتہ مدتوں کے بعد بھی گلی کے نکڑ پر پتیلی کے ایک زنگ آلود ٹکڑے پر کوچہ حاجی امیر علی سوڈا واٹر والا کا نام ابھی تک زندہ تھا۔

پوری گلی ویران پڑی تھی، نیم تاریکی اور گہری خاموش میں لپٹی ہوئی گلی پاگل چہرے کی مانند سپاٹ،بے مصرف اور بے معنی تھی۔ گلی کے اندر ہلکا ہلکا سا دھواں اڑ رہا تھا۔ اندر کو گلی جہاں ختم ہوتی تھی کوڑے کا ایک بڑا سائین رکھا ہوا تھا۔ اس کے چاروں طرف ردی کا غذ روٹی کے باسی ٹکڑے جانوروں کی ہڈیاں سگریٹ اور ماچس کی خالی ڈبیاں بکھری ہوئی تھیں۔ کوڑے کے ڈھیر پر ایک خارش زدہ کُتا دیر سے پنجے مار مار کر پوری گلی کو گرد آلود کیے ہوئے تھا۔ گلی کے نکڑ پر ایک بڑے میاں ریڑھی پر حلوہ پوری بیچ رہے تھے۔ دیوار کے ساتھ ایک بوسیدہ بنچ پڑی تھی۔ جس پر دو تین آدمی بیٹھے ہوئے  بڑے انہماک اور رغبت سے حلوہ پوری کھا رہے تھے۔ ان کے چہرے اور اُن کی آنکھوں میں صدیوں کی بھوک کی اذیت ناک پر چھائیاں تھیں۔ وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر پوری کے بڑے بڑے نوالے حلق سے یوں نیچے اتارنے میں مصروف تھے کہ کہیں کوئی ان کے ہاتھوں کا نوالہ چھین نہ لے، ٹوک نہ دے، کھانے سے منع نہ کردے۔ ان میں سے ایک آدمی کھانے سے فارغ ہو کر اٹھا، جلدی جلدی اپنی انگلیاں چاٹیں، چپڑ چپڑ کر کے دو تین بار چٹخارے لیے اور پتلون کی جیب سے ٹٹول ٹٹول کر پیسے نکالے اور بڑے میاں کی ہتھیلی پر رکھ دیئے۔ پھر د وتین بار مُڑ مُڑ کر حلوہ پوری کو لالچی نظروں سے دیکھتا ہوا میرے قریب سے گزر گیا۔ وہ شاید اسی دفتر کا ملازم تھا، جہاں مجھے جانا تھا، کیونکہ وہ اسی عمارت میں داخل ہوا تھا۔ مجھے یہ سب کچھ بے حد عجیب بے ڈھنگا اور سخت اکتا دینے والا لگ رہا تھا۔ یہاں کی پوری فضا میں ایک خاص قسم کی بیچارگی اور کمینہ پن رچا ہوا تھا۔

میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ آؤٹ ڈور گیمز کا دلدادہ، سیر سپاٹے کا رسیا اور لاپر واہی کی ایسی زندگی جس میں کوئی ذمہ داری کا بوجھ اور اقتصادی الجھن نہ تھی۔ مگر والد کے اچانک انتقال سے پورے کنبے کی ذمہ داری ایک دم پر مجھ پر آن پڑی تھی اور مجھے یونیورسٹی کی کھلی فضا اور آزاد دنیاکو اچانک خیر باد کہہ کر روزگار کا سہارا لینا پڑا تھا۔ رونق منزل کی تیسری منزل پر میرا دفتر تھا۔ رونق منزل نام کو رونق منزل تھی ۔ پوری عمارت ایک ایسے ماتمی چہرے کی مانند تھی جسے دکھ سہتے زمانہ بیت گیا تھا۔جگہ جگہ بے رونقی اور اجاڑپنے کی کیفیت جھانک رہی تھی۔ میں نے اندازہ کیا کہ گلی میں ایک جانب دبکی ہوئی اس عمارت پر شاید کارپوریشن والوں کی نظر نہیں پڑی ورنہ اس عمارت کو مخدوش قرار دے گرڈھا دینے میں کارپوریشن کا عملہ ہر گز تکلف یا مروت سے کام نہ لیتا۔ رونق منزل کے سامنے حاجی امیر علی سوڈا واٹر والا کی وقف شدہ بوسیدہ فلیٹوں کی چھوٹی چھوٹی بے ڈھنگی سیڑھیاں نیم تاریکی میں پرانے زخم کے سیاہ کھرنڈ کی مانند بدرنگ اور غلیظ دکھائی دے رہی تھیں۔ فلیٹوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ہی پتا چل جاتا تھا کہ اس میں کچھ کاٹھیا واڑ اور بمبئی کے معمولی تاجر پیشہ میمن آباد ہیں۔  حیرت اس بات پر تھی کہ فلیٹ کے نیچے گلی میں اس آبادی کے باوجود غنودگی اور خاموشی پھیلی ہوئی تھی جبکہ میمنوں کچھیوں کا ٹھیا واڑی بچوں کو شروع ہی سے سٹاک ایکس چینج اور سٹہ بازار میں ہلّا گلّا مچانے کی معقول تربیت دے دی جاتی ہے۔ فلیٹ کی بالکونیوں پر لکڑی کی آڑی ترچھی جھریاں تھیں، جن میں کبھی کبھی کسی تھلتھلی اور ناک شڑ شڑاتی عورت کی جھلک نظر آجاتی تھی۔کہیں کہیں انگنی پر ریشمی شلواریں، سرخ رنگ کے دوپٹے بچوں کے نیکر اور مردوں کے میل سے چکٹ بنیائن سوکھنے کے لیے لٹکے ہوتے تھے۔

رونق منزل کی سیڑھیوں پر بھی نیم شبی کا اندھیرا تھا۔ میں دیوار کا سہارا لے کر اوپر چڑھا۔ پہلی منزل پر تین بڑے بڑے کمرے تھے۔ جن کی چھت لکڑی کی تھی۔ جگہ جگہ سے ہارڈ بورڈا دھڑکر نیچے جُھول گئے تھے۔ دیواروں کا پلاستر ٹوٹ ٹوٹ کر فرش پر بکھرا ہوا تھا اور تاریک سنسان کمروں میں موٹے موٹے چوہے اطمینان سے ایک دوسرے کی رگیدار گیدی میں مصروف تھے۔ پرانی فائلوں کے بڑے بڑے بنڈلوں پر چوہوں نے خوب دانت تیز کیے تھے۔ کٹے پھٹے کاغذ’فلیپ“ اور ”فائل کور“ آدھے سے زیادہ کمروں میں بے ترتیبی سے بکھرے پڑے تھے۔ دوسری منزل پر سیڑھیوں کے قریب ہی ایک بڑی سی سیاہی مائل میز کے عقب میں مجھے ایک فربہ جسم کا آدمی بیٹھا ہوا ملا۔ اس کی آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک تھی، عینک کے فریم پر میل جم رہا تھا اور کمانی کی جگہ اس نے موٹے موٹے دھاگے باندھ کر کانوں پر لپیٹ لیے تھے۔وہ پہلے کئی لمحوں تک مجھے تولنے والی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔

کہو بھائی کیا بات ہے

میں نے اپنا پوسٹنگ آرڈر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے اپنی عینک درست کی اور بڑے غور سے پڑھنے کے بعد مجھے سے بولا۔

پھر اسی بات پر چائے منگوالو۔

میں نے کہا چاچا دفتر تو جوائن کرلوں چائے بھی پی لینا۔

میاں تم یہاں آتو رہے ہو، مگر ایک بات کا خیال رکھنا مجھ سے اڑی نہ کرنا، چائے وائے کا خیال رکھنا، ورنہ ہر روز حاضری رجسٹر کے ساتھ بڑے دربار میں تمہاری پیشی ہوتی رہے گی۔

تیسری منزل پر تیسرے کمرے میں چلے جاؤ، لیکن اس وقت کم از کم ایک آدھ سگریٹ ہی پلا دو، بڑی دیر سے طلب لگ رہی ہے“۔

تیسری منزل پر پہلی اور دوسری سے کہیں زیادہ اندھیرا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے وہ شخص رونق منزل کی تاریکی کا ایک حصہ معلوم ہوا۔ بڑے اطمینان سے بیٹھا ہوا سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا رہا تھا اس کی آنکھوں میں حریصانہ چمک اور ہونٹوں پر گہرے طنز کی مسکراہٹ تھی۔ پہلے کمرے یں دو اکاؤنٹس افسر ٹیبل لیمپ کی روشنی میں زردسائے کی طرح لرز رہے تھے۔ ان کی لمبی چوڑی میزوں پر فائلوں کے انبار تھے۔ پشت کی جانب لکڑی کے شلف میں بھی مٹیا لے رنگ کے فائل تلے اُوپر رکھے تھے۔ ان کے سوکھے ساکھے چہروں پر زردی کھنڈ رہی تھی۔ وہ بڑے انہماک سے فائل دیکھنے میں مصروف تھے، دروازے پر خاکستری رنگ کا ایک دبیز پردہ لٹک رہا تھا، کبھی کبھی پردہ ہٹتا تو اندر کامنظر ایک لمحہ کے لیے آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا۔ دوسرے کمرے میں بھی  مجھے بے شمار فائلوں اور کاغذات کے موٹے موٹے بنڈلوں، گتّوں کے درمیان چار پانچ آدمی کام کرتے ہوئے نظر آئے۔ مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہورہی تھی کہ وہ قد کاٹھ چہرے مہرے اور تاثرات کے اعتبار سے ایک ہی جیسے تھے۔ دبلا پتلا جسم، ہانپنی کانپتی آواز، موٹی موٹی عینک اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں، بڑھے ہوئے بال، گھسے پٹے ریکارڈ کی سی آواز، بلغمی کھانسی، بار بار چائے کی طلب اور سستے سگریٹوں کے لمبے لمبے کش۔ ”یار، آج تو کٹ جاؤ۔ منگوالو درپیالی چائے، فوکس اون میرے ذمہ“ دوسرے کمرے کی یہ آوازیں حریص بھی تھیں اور ملتجی بھی۔

میں اب اپنی برانچ کے سامنے کھڑا تھا۔ دروازہ ادھ کھلا تھا۔ نیم وا دروازے کی جھری سے اندر کا منظر خاصہ حوصلہ شکن تھا۔ اندر اندھیرا تھا۔ دروازے کے قریب ہی ایک بڑی سی میز کا نصف حصہ نظر آرہا تھا جس پر ایک ہٹلر نما ہاتھ کی پتلی پتلی بے رنگ بد وضع انگلیاں بے چینی سے میز پر ٹھوکے دے رہی تھیں، کمرے کی دیوار کے ساتھ ساتھ لمبی لمبی میزیں لگی تھیں۔ ان میزوں پر فائلوں کے بے شمار بنڈل ایک کے اُوپر ایک رکھے تھے۔  نوٹ شیٹس اور ڈرافٹ پیپر جگہ جگہ سے باہرجھانک رہے تھے۔ فائلوں کے انبار سے ایک شخص کا سر ابھرا۔ اس نے میز پر قلم رکھا۔ دو چار جمائیاں لیں اور ایک لمبی انگڑائی کے بعدمیز کے اوپر سے فائلوں کا ایک بنڈل کھینچا۔ اور زور سے اپنی میز پر پٹک دیا۔ فائلوں سے اڑتی ہوئی گرد کی چادرمیں وہ چھپ گیا۔ گرد کی ہلکی ہلکی چادر میں اس کا چہرہ اور بھی زرد اور بیمار نظر آنے لگا تھا۔ وہ زور زور سے کھانسنے لگا۔ پھر تھک کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا سر جو مجھے  باہر سے نظر آرہا تھا۔ فائلوں میں گم ہوگیا۔

”اُف تو بہ ہے یہ گرد توجان لے کر رہے گی ”اس جملہ میں اس کی آواز کئی بار ٹوٹی تھی۔

میں نے دروازے پر کھڑے کھڑے پیچھے مُڑ کر دیکھا، آئیڈئل زندگی کو آنکھ مار کر کہا۔ ”جان من رخصت ہوجاؤ۔اب تو بقیہ زندگی آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوازمانہ پر گزرے گی۔ خواہ مخواہ میرے ساتھ رہ کر تمہیں پشیمانی ہوگی۔ بس اب تم لوٹ جاؤ۔ اس دروازے تک ہمارا تمہارا ساتھ تھا۔ اس دروازے کے اندر ہمارا تمہارا میل ملاپ کسی کو ایک آنکھ بھی نہ بھائے گا“۔

میں نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازے کا آدھ کھلا پٹ تیز چر چراہٹ کے ساتھ کُھل گیا۔شاید دروازے کی تیز چر چراہٹ اندر بیٹھنے والوں کو بہت ناگوار گزری تھی۔ میں ان کے چہروں پر ناگواری کے اثرات صاف طور پر دیکھ رہا تھا۔ ان کے سارے بے معنی اور سپاٹ چہروں پر ایک ہی سوال تھا جو ایک نئے سوالیہ چہرے سے جواب طلب کر رہا تھا۔ کمرہ کشادہ نہ تھا۔ اس کی شکل چوکور تھی۔ دیوار کے ساتھ ساتھ لمبی میزیں تھیں اور ہر قدم کے فاصلے پر ایک کرسی پر ایک کلرک بیٹھا ہوا تھا۔ افسر انچارج کی میز دروازے کے ساتھ ہی تھی اس کی عمر چالیس پینتالیس کے درمیان ہوگی۔ لیکن دیکھنے میں  وہ ساٹھ ستر سال کا پھوس بڈھا معلوم ہوتا تھا۔ جس نے شاید اپنی زندگی کے بہترین لمحات اسی قبر میں گزار دیئے تھے۔ہم اپنی اپنی قبروں کے خود ہی مجاور ہیں، ہاں آج پرانی قبروں کے درمیان ایک نئی قبر کا اضافہ ہونے والا ہے۔ ایک نیا مجاور آیا ہے جو تمام عمر اپنی قبر کے سرہانے بیٹھ کر سینہ کوبی کرے گا۔ تم لوگ اسے خوش آمدید کہو۔مگر تمہارے چہروں پر یہ کیسی خاموشی ہے۔کیسی بے معنی سوچ منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا تمہیں میرے آنے سے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ کیا تم لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ آج تمہاری خاموشی آبادی میں ایک نئے شخص کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کی سانسوں میں ابھی تک باہر کی فضاؤں کی تازگی خوشگوار ہوا کی خوشبو رچی ہے، جو اپنے سینے میں زندہ  رہنے کا حوصلہ اور اپنی آنکھوں میں سورج کی کرنوں کی چمک سمیٹ لایا ہے کہ اس نیم تاریک، نیم خاموش فضا میں زندگی کی لہر دوڑا سکے، لیکن یہ کیا، تمہارے چہروں پر جھنجھلاہٹ کیسی، آنکھوں میں کدورت اور کینہ توزی کیوں؟۔تمہارے ہونٹوں پر یہ طنز یہ مسکراہٹ کیوں، تمہارے چہروں پر یہ بے معنی سوال کیوں؟۔

کمرے میں کل آٹھ افراد تھے، چھ تو ادھیڑ عمر کے تھے، دونوجوان ہونے کے باوجود کھچڑی  بال اور موٹی عینکوں کی وجہ سے ادھیڑ عمر کے لگ رہے تھے۔  دُبلا پتلا بیمار زدہ جسم  موٹی موٹی عینک، فائلوں کے انبار، کھوکھلی کھانسیاں،بلغمی تھوک،سگریٹ کا دھواں اس ماحول کی قدر مشترک تھی، میں نے اپنا پوسٹنگ آرڈر افسر انچارج کو بڑھا دیا۔اُس نے  پہلے اپنی عینک کو اتار کر قمیص کے دامن سے صاف کیا اور پھر پوسٹنگ آرڈر کی تحریر غور سے پڑھنے کے بعد بولا۔

”پہلی سروس ہے یا اس سے پہلے بھی کر چکے ہو“۔اس کی آواز سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اختلاجِ قلب کا پُرانا مریض ہے۔

”جی ہاں۔ یہ میری پہلی نوکری ہے“۔

”خیر۔ خیر جلد ہی ٹھیک ہوجاؤ گے۔ اس بات کا خیال رہے کہ یہ یونیورسٹی یا پلے گراؤنڈ نہیں ہے  جہاں تم سپورٹس سپرٹ سے دا د وصول کرسکو۔ یہ سرکاری دفتر ہے اور دفتر کے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں جن کی پابندی ہر حال میں تم پر لازم ہوگی۔ وقت پر آؤ۔ اپنی میز کا پورا کام ختم کر ڈالو، جانے کا ارادہ تم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ لیٹ بیٹھ کر کام کرنا (Efficiency) میں شمار کیا جاتا ہے، ترقی اور سالانہ انگریمنٹ کا انحصار ان ہی باتوں پر ہوتا ہے سمجھ گئے نا“۔

بات کرتے کرتے اس کا چہرہ یکبارگی سُرخ ہوگیا۔ جسم کا بچا کھچا خون سمٹ کر اس کی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں کے حلقے اور بیٹھے ہوئے رخساروں کو گر ماگیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شاید ایک معمولی لمحے کے لیے زخم کے جذبات آئے تھے۔ لیکن پھر وہی کرختگی اور سفلہ پن جھانکنے لگا جو برسوں کی کڑی ریاضت میں اسے حاصل ہوا تھا۔ میں سب کچھ سمجھ چکا تھا۔ اپنے صحت مند جسم کے ساتھ باہر کی جو تازہ ہوا۔ پھولوں کی خوشی اور سورج کی روشنی سمیٹ کر لایا تھا انہیں اندر لانے کی سختی سے ممانعت کردی گئی تھی۔

”میری باتوں کو سمجھ گئے؟“  اس کی آواز میں تحکم اور گھڑکی تھی۔

میں جو کچھ دیر کے لیے گم ہوگیا تھا۔ ہڑ بڑا کر بولا ”جی ہاں“ جی ہاں بالکل“۔

میری سعادت مندی اور بیس مین والے جواب سے شاید اسے بڑی تسکین حاصل ہوئی تھی۔ اس نے فخر سے ایک بار پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ آنکھوں آنکھوں میں اپنے ماتحتوں سے کہا میرے رعب کا عالم دیکھا اور پھر اپنے چشمہ کو دامن سے صاف کرتے ہوئے گڑ گڑایا۔ ”جاؤ وہ تیسری میز تمہاری  ہے، کام سنبھالو“۔

میں نے محسوس کیا کہ دفتر کے دوسرے ساتھیوں نے مجھے ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔ میرا صحت مند جسم، چہرے اور آنکھوں کی تازگی، بازوؤں کی مچھلیاں رفتار کی شوخی اور بے باکی ہمارے اور ان کے درمیان حائل تھی۔

جب میں اپنی میز پر پہنچا تو عقب سے ایک دھم سی گھسی پٹی آواز آئی۔

”لونڈ ہار پن ٹپک رہا ہے ایک ہفتے میں سارا کس بل نکل جائے گا“۔

میز کی بائیں جانب ایک لمبی سی کھڑکی تھی۔ جو تقریباً چار یا پانچ ہاتھ اُوپر تھی۔ اس کے دونوں پٹ بند تھے، کمرے میں سخت گُھٹن اور بوسیدہ فائلوں کی مکر وہ بد بو پھیلی تھی۔درمیان میں صرف ایک پنکھا تھا، جو گھرر گھرر گھوں گھوں کی آواز کے ساتھ بڑی دھیمی اور بیمار رفتار سے چل رہا تھا۔

پتا نہیں یہ اس کھڑکی کو کیوں نہیں کھولتے اگر کھڑکی کُھل جاتی تو شاید اندر اس قدر اندھیرا اور گھٹن نہ ہوتی۔ میرا خیال ہے آج یہ لوگ کھڑکی کھولنا بھول گئے ہیں۔ میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے بابو پر نظر ڈالی، وہ ابھی نوجوان تھا۔ مگر چہرے کی بے شمار جُھریاں کھچڑی بال اور آنکھوں کی میلی میلی رنگت سے وہ کہیں زیادہ عمر کا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بال گھنگھریا تھے۔ ناخنوں میں سیاہ میل جما ہوا تھا اور وہ بار بار ڈرافٹ پیپر پر قلم سے آڑی ترچھی لکیریں کاٹ رہا تھا۔

مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ تمہاری شادی ہوچکی ہے۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ابھی نہیں اور مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا“۔

”میں تمہارے اس جملے سے محظوظ نہیں ہوا۔میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عورت انسان کی پہلی اور آخری ضرورت ہے اور تم اس دفتر میں رہ کر ہمیشہ اس سے محروم رہوگے ”پھر اس نے تیزی سے ڈرافٹ پیپر پر ایک ننگی عورت کی تصویر بنا کر مجھے دکھائی۔ ”کیسی ہے“۔

”اچھی ہے“ میں نے بشاشت سے جواب دیا۔

”رکھ لو، تمہارے کام آئے گی ”اتنا کہہ کر وہ مجھ سے لاتعلق ہوگیا اور کسی فائل پر نوٹ لکھنے میں مصروف ہوگیا۔ بات چیت اس سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ اس سے مایوس ہو کر دوبارہ کھڑکی کے متعلق سوچنے لگا۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں اس تاریک گھٹن میں سانس لیتا۔ میں نے اپنی کرسی پر کھڑے ہو کر کھڑکی کے ایک پٹ کو زور لگا کر کھول دیا۔ تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ ہی سورج کی روشنی نے اندر کی گہری تاریکی کو جگمگا دیا لیکن اس کے ساتھ ہی کمرے کے اندر گھٹی گھٹی چیخیں بلند ہوئیں۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو آفس انچارج سمیت تمام کلرک آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیخ رہے تھے۔کھڑکی بند کرو خبیث۔ کیا ہماری آنکھیں پھوڑ و گے“۔

میں نے ترنت کھڑکی بند کردی۔ کھڑکی بند ہوئی تو کچھ دیر کے لیے پہلے سے زیادہ تاریکی کمرے پر مسلط ہوچکی تھی۔ آنکھیں تاریکی سے مانوس ہوئیں تو ایک دم سے سبھی مجھ پر برس پڑے۔

”نہیں کیا ضرورت تھی۔ کھڑکی کھولنے کی دیکھتے نہیں روشنی میں آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ اگر تمہیں تازہ ہوا اور روشنی کی اتنی ضرورت ہے تو یہاں آنے سے پہلے اور نکلنے کے بعد جتنا جی چاہے حاصل کر لیا کرو۔ لیکن آئندہ سے کمرے کی یہ کھڑکی نہ کھولنا“۔

میرے پاس والے ساتھی نے میز سے پیپر ویٹ اُٹھالیا تھا۔”اگر اب کی بار یہ حرکت کی تو سر پھاڑ دوں گا۔ آئندہ احتیاط رکھنا“۔

تیسرے بابو نے کھانس کر کہا ”میاں ہمیں روشنی نہیں چاہیے۔ ہمیں اس کمرے میں تازہ ہوا نہیں چاہیے۔روشنی میں آنکھیں چمکنے لگتی ہیں اور تازہ ہوا سے سانس پھولنے لگتی ہے۔ ہم تو اس تاریک کمرے کے عادی ہیں۔تم ہمیں اس حال میں رہنے دو۔گڑ بڑ کی تو نقصان اُٹھاؤ گے۔ کیا سمجھے“۔

”جی ہاں۔ جی ہاں، بالکل سمجھ گیا کہ تازہ  ہوا اور سورج کی روشنی آپ کی آنکھوں اور پھپھڑوں کے لیے مضر ہیں۔ میں آئندہ سے اس بات کا پور ا پورا خیال رکھوں گا“۔

میں بڑی دیر تک حیرت کی تصویر بنا ٹک ٹک دیدم۔دفتر کا تاریک کمرہ، بوسیدہ فائلوں کے انبار،گردہ اور تھکن کی موٹی موٹی لحاف اوڑھے ہوئے پھیکے بے جان اور سپاٹ چہروں پر زندگی کی علامات تلاش کرتا رہا۔  مگر کمرہ بے حد تاریک تھا اور تاریکی میں کسی چیز کو ڈھونڈ لینا آسان کام نہیں ہوتا۔ میں نے بند کھڑکی کی جانب دیکھا۔ جھری سے باہر ہلکی ہلکی حیات بخش دھوپ کی حرارت اور روشنی اندر گھسنے کا راستہ ٹٹول رہی تھی۔

روشنی کی چمک اور دھوپ کی حرارت اور چڑیوں کا شور، اُف باہر کی زندگی کس قدر حسین اور صحت مند ہے۔میں ایک بھرپور انگڑائی لے کر کرسی پر اطمینان سے بیٹھ گیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے