کاسموس کی عمر 14بلین سال ہے۔جبکہ زمین کی عمر 4.6بلین سال ہے۔کائنات میں زندگی نے بہت دیر سے جنم لیا ہے۔ اور انسان تو بہت بعد میں آیا۔انسان محض سات ملین سال کا ہے۔ اور اس کے اندر کا برین تو بہت عرصہ بعد ڈویلپ ہوا۔ یعنی زمین، دریا،پہاڑ،سمندر، پیڑ پودے اور جانور۔ یعنی کاسموس انسان سے کم از کم تیرہ بلین سال پہلے سے موجود تھا اور زمین ہم سے چار بلین سال سینئر ہے۔ اور یوں مَیٹر انسان اور اُس کے  ذہن کا باپ ہے۔ اور انسانی ذہن میٹر کا بیٹا۔ بیٹا تووالد سے بڑا نہیں ہوتاناں!۔ لہذا ہم اور ہمارا شعور میٹر سے بہت بعد میں آئے ہیں۔

شعور Consciousnessاپنی ذات اور اپنے گرد دنیا کے بارے میں جاننے کو کہتے ہیں۔ مغز اور وہاں پیدا شدہ شعور اِسی مَیٹرہی سے ڈویلپ ہوئے۔ اسی پہلے سے موجود میٹرسے انسان بنا، اور اسی پہلے سے موجود میٹر سے انسانی برین بنا۔ جو کہ غور فکر کر نے کی ایک مہان فیکٹری ہے۔

شعور صرف اور صرف انسانی برین کا کام ہے۔کائنات میں کسی اور چیز میں یہ اہلیت نہیں ہے۔ حتی کہ انسان کے اندر بھی دماغ کے علاوہ کسی اور عضو میں یا کسی سیل میں شعور نہیں ہے۔ منصوبہ، نصب العین، مقصد سب انسانی برین کے کام ہیں۔ گدھے کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ چلتن پہاڑ کا کوئی نصب العین نہیں  ہوتا۔ بیجی اور ہنگول کے مقدس دریاؤں کا کوئی نصب العین یا مقصد نہیں ہوتا۔ سمندر کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ نصب العین، مقصد نظریہ صرف انسان کا ہوتا ہے۔ اور انسان محض سات ملین سال سے اِس 14بلین برس بوڑھے کائنات میں آیا ہے۔ اس لیے شعور، منصوبہ، نصب العین انسانی برین کے ڈویلپ ہونے کے بھی بعد آئے۔یوں میٹر یعنی (برین) شعور کو بناتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔ شعور اور آئیڈیا مَیٹر ہی سے وجود میں آتے ہیں۔

چونکہ مغز میں سے آئیڈیا اور شعور نکلتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ شعور اور آئیڈیاز بھی میٹر ہیں، آواز و صدا بھی۔ارے بھئی عشق ومحبت بھی میٹر ہیں۔ جس چیز کو ہم خیال یا روح کہتے ہیں وہ دراصل انسان کے مغز ہی کا عمل ہے۔ مغز سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

شعور کے نمودار ہونے کے بعد انسانوں اور جانوروں کے درمیان فیصلہ کن فرق پیدا ہوگیا۔شعور کے ظہور نے انسانی وجود کے ساتھ پیچیدگی کا ایک نیا نظام  جس طرح انسانی معاشرے کے ارتقاء کے دوران انسانی رشتے تبدیل ہوچکے ہیں اسی طرح انسانی شعور بھی تبدیل ہوچکا ہے۔

***

آپ سمجھیے کہ ہم ایک نوزائیدہ بچے کے مغز پہ بات کر رہے ہیں۔ مغزایک زبردست آرگن ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شروع شروع میں کورا کاغذ ہے۔یہ استعمال سے نشوو نما پاتا ہے۔ وہ شروع دن ہی سے آس پاس کی دنیا سے interactکرتا ہے، مشاہدہ کرتا ہے اور چیزوں پہ کام کرتا ہے۔  پیدائش کے وقت اس کا محض برین سٹیم اور سپائنل کارڈ ڈویلپ شدہ ہوتا ہے۔ جس سے وہ محض، سونا، کِکنگ،rootingاور فیڈنگ کرسکتا ہے۔اس مغز میں دوسرا کوئی پروگرام فیڈ نہیں ہے۔ اس نوزائیدہ کے شعور تک جانے کے پراسیس میں مندرجہ ذیل اعضا اور اقدامات آتے ہیں:

۔1۔ حواس خمسہ

ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بچہ اس دنیا میں عظیم ترین learningمشین ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کا کورا کاغذ یعنی مغز یا ہارڈ ڈسک پروگرامڈ کیسے ہوتا ہے؟۔جواب یہ ہے کہ اس کے جسم میں بالخصوص انگلیوں بھرے دو ہاتھ، دوکان، دو آنکھیں، دو نتھنے اور جسم کا سب سے وسیع وعریض عضو یعنی جلد موجود ہوتے ہیں۔ جو کہ ہمہ وقت اور ہمہ حالت حیرانگی کے ساتھ سرگرم طور پر بیرونی دنیا کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔

یہ اعضا اپنے اپنے مشاہدات مغز کے خالی مگر بہت بڑے ہارڈڈسک میں ڈالتے جاتے ہیں۔ یعنی درد، جلن، ٹھنڈک، گرمائش، نرمی سختی، خوشبو بدبو، اور آنکھ سے دیکھی ساری چیزیں بھرتی ہوجاتی ہیں۔اِن مشاہدات کو ہم ”حسیات“ یا(Perceptual knowledge)کا نام دیتے ہیں۔ یعنی وہ علم جو sensesیا حواس سے percieveکیا جاتا ہے۔یہ عمل اشیا کو جاننے یعنی علم کی پہلی سطح ہے۔

آپ تصور کریں کہ اگر جلد، ہاتھ، پاؤں، آنکھ، ناک اور کان موجو دنہ ہوں یا فنکشن نہ کریں تو مغز کا ہارڈ ڈسک تو خالی رہے گا۔ اس صورت میں اسے مغز تو نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ مغز اکیلا کچھ نہیں۔ وہ اپنے ساتھ ایسے آلات رکھتا ہے جو بیرونی دنیا کی معلومات اُس تک پہنچاتے ہیں۔ یہ آلات ہمارے حواس ہیں۔ مغز حسیات کے در یچوں سے دیکھنے پر مجبور ہے۔

جو شخص اپنی آنکھیں بند کرے، اپنے کان میں  پنبہ ٹھونس دے اور خود کو معروضی دنیا سے مکمل طور پر کاٹ دے تو اس کے پاس علم نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ علم تو تجربے (عمل)سے شروع ہوتا ہے۔

آپ نے غور کیا ہوگا کہ یہ اعضا رکتے نہیں، آرام نہیں کرتے۔ بلکہ ساری عمر اپنے حاکم یعنی برین کو پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سارے اعضا موجود ہوں مگر حرکت نہ کریں تب بھی کوئی سگنل برین کے ہارڈ ڈسک کی طرف نہیں جاتا۔

لہذا سارا علم انسان کے سینس آرگنز کے ذریعے معروضی بیرونی دنیا کے احساس سے شروع ہوتا ہے۔

لیکن اگر ہارڈ ڈسک کو فیڈ کرنے کے بعد برین کے یہ اہلکار اعضا بے کار ہوجائیں تب بھی برین کام نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ برین کو چیزوں کو پراسیس کرنے کے لیے نئی نئی انفارمیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی حسیاتی انفارمیشن یا چیلنج یا ٹاسک نہ ملے تو ہارڈ ڈسک میں سٹور پروگرام بیکار پڑا رہتا ہے۔ کسی چیز کو جاننے کے لیے اس کے ساتھ رابطے میں رہنا ضروری ہے، اس کو پریکٹس کرنا ضروری ہے۔ کچے خربوزے کا ذائقہ جاننے کے لیے کچے خربوزے کا چکھنا ضروری ہوتا ہے۔مگر پکے خربوزے کا ذائقہ جاننے کے لیے کچے خربوز کے ذائقہ کا علم کام نہیں دے گا۔ اس کے لیے آپ کو پکے خربوزے کا ذائقہ چکھنا ہوگا۔ فیوڈلزم کے اندر رہتے ہوئے آپ فیوڈلزم ہی کے قوانین کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ مگر اُس فیوڈلزم کے اندر رہتے ہوئے ایڈوانس میں کپٹلسٹ سماج کے قوانین جاننا ناممکن ہے۔ مارکس کے زمانے میں امپیریلزم یعنی سامراج نہ تھا۔ اس لیے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ لینن کے زمانے میں ظہور پذیر ہوا۔ اس لیے لینن ہی نے امپیریلزم کے قوانین جانے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ علم کو زیادہ گہرا ہوتے رہنا چاہیے۔ یعنی علم کے ادراکی Perceptualمرحلے کو استدلالی rationalعلم تک بڑھو تری کرتے رہنا چاہیے۔

ایک چیز کو اس کی مجموعیت میں reflectکرنے، اس کے جوہر (essence) کو reflectکرنے، اس کے موروثی قوانین کو reflectکرنے کے لیے احسا س ادراک  (Sense of perception) کے امیر اعداد وشمار کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے ایکسر سائز کے ذریعے، کچرہ کو ضائع کرنے اور لازم کو چننے کے لیے، باطل کو ختم کرنے اور سچے کو برقرار رکھنے کے لیے، ایک سے دوسرے کی طرف اور باہر سے اندر کو بڑھنے کے لیے تاکہ تصورات اور نظریات کا ایک نظام بنایا جائے۔۔۔۔۔ ادراکی (Percetional) سے استدلالی (Rational) علم کی طرف ایک چھلانگ لگانا لازم ہے۔

لہذا علم کے پراسیس میں پہلا قدم بیرونی دنیا کی چیزوں سے ڈائریکٹ رابطہ رکھنا ہے۔ یہ perceptionکا مرحلہ ہوتا ہے۔ دوسرا قدم اِس اور اک (perception)کے ڈیٹا کو ترتیب دیکر اور دوبارہ کنسٹرکٹ کر کے SYNTHESIZEکرنا ہے۔

آپ نے دیکھا کہ استدلالی (Rational) علم ادراکی (Perceptual) علم پر انحصار کرتا ہے؟۔ اور ادراکی (Perceptual) علم کو استدلالی (Retional) میں ترقی کرنا ہے۔

 

۔2۔ بھیجا، دماغ یا مغز(برین)

اب آجائیے برین یعنی مغز کی طرف۔ برین(مغز) پورے جسم کے وزن کا محض دو فیصد ہے مگر یہ جسم کے کُل آکسیجن کا 20فیصد خرچ کرتا ہے۔ اور شیر خوار بچوں میں تو یہ شرح 50فیصد تک ہوتی ہے۔ دوسرا کمال دیکھیے کہ جسم کے گلو کوز کا 20فیصد صرف مغز استعمال کرتا ہے۔

موٹے الفاظ میں برین شعور، تصورات اور خیالات کا آلہ ہے۔

برین کے کام درجِ ذیل ہیں:

۔ 1۔ انفارمیشن جمع کرنا تو اُس کا سب سے اہم کام ہے۔

۔2۔یہ دوسرا بڑا کام حسیاتی آرگنز سے آمدہ انفارمیشن کو سٹور کرنے کا ہے۔

۔3۔پھر تیسرا کام وہ یہ کرتا ہے کہ اس ساری انفارمیشن کی فائلیں بناتا جاتا ہے۔ فولڈرز بناتا جاتا ہے۔ اور انہیں ترتیب دیتا ہے۔

۔4۔ صرف یہ نہیں بلکہ چوتھا کام وہ یہ کرتا ہے کہ ضرورت کے وقت اِن فائلوں، فولڈروں کو فوری کھولنے کا انتظام کرتا ہے۔

یہ چاروں ہم آہنگ اور ہم بستہ کام وہ دراصل دو دیگرفرائض کی بجا آوری کے لیے کرتا ہے۔

پہلا (یعنی پانچواں) تو یہ ہے کہ وہ کسی بھی ٹاسک یا فریضہ یا ضرورت کے لیے سارے  حسیاتی علم کی مدد لے کر پراسیسنگ کا زبردست اور پیچیدہ کام کرتا ہے۔برین پراسیسنگ کا شاید دنیا کا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔

دوسرا (یعنی چھٹا اور آخری) کام وہ یہ  کرتا ہے کہ پراسسنگ کے بعد انسان سے جو کام کروانا ہے اُس کا جامع اور کلیئر کٹ حکم دیتا ہے۔مطلب یہ کہ انسان صرف خارجی اشیا کا علم ہی حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے عمل سے خارجی دنیا پر اثر انداز بھی ہوتا ہے، اُسے بدلتا بھی ہے۔

کمال یہ ہے کہ حکم یا آرڈر یا پیغام لے جانے والے آلات وہی ہوتے ہیں جو اُس کے انفارمریا جاسوس یا قاصد بھی ہیں۔جیسے کہ یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ممالک کی انٹلی جنس ایجنسیاں جاسوسی کرتی ہیں۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ صرف جاسوسی نہیں کرتیں بلکہ عملی کاروائیاں بھی وہی کرتی ہیں۔ امریکی سی آئی اے  نے محض جاسوسی نہ کی بلکہ دنیا کے ممالک کو برباد کر کے رکھ دیا۔ یہی کچھ برین کے جاسوسی والے اوزار کرتے ہیں۔ وہ جاسوسی بھی کرتے ہیں اور ان میں سے بالخصوص ہاتھ، پاؤں اورآنکھ برین کے احکامات پر عملدر آمد کرنے کے ہر کارے بھی ہیں۔ اب یہ آلات صرف حکم کا پیغام نہیں لے جاتے بلکہ عملدرآمد کے ذمہ دار بھی یہی ہوتے ہیں۔۔ عملدرآمد کے ہر کار ے!۔

اب ذرا غور کریں کہ اگر دماغ ہی موجود نہ ہو یا کام نہ کر رہا ہو تو وہ سارے چھ کے چھ کام نہ ہوسکیں گے جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اس قدر ضروری کہ یہ نہ ہوں تو انسان حیوان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔

 

۔3۔ بیرونی دنیا

ہم نے شعور کے لیے ضروری آرگنز یا اعضا کے نام تو لیے مگر ہمیں چوتھی چیز ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے۔یعنی یہ کہ ناک میں خوشبو کہاں سے آتی ہے،آنکھ کے دیکھنے کی بات تو ہم کرچکے مگر  اِن نظاروں کا منبع کیا ہے، کانوں میں آنے والی آوازوں کا سرچشمہ کیا ہے۔ ٹچ اور ٹمپریچر کے سورس بھی تو باہر ہیں۔

یہ چوتھی اور مساوی طور پر اہم چیز ”بیرونی دنیا“ہے۔ بیرونی دنیا نہ ہو تو کیا نوزائیدہ، کیا میچور شخص، کچھ بھی جانا نہ جاسکتا۔کچھ بھی کیا نہ جاسکتا۔انسانی بچہ پرندوں کو اڑتا نہ دیکھتا تو بڑا ہو کر ”رائٹ برادران“ پیدا نہ کرتا۔ لکڑی کے بڑے تختے کے تیرتے رہنے اور لوہے کی معمولی کیل کو ڈوبتے ہوئے نہ دیکھتا تو سمندر کے سینے پہ ہزاروں ٹنوں کے بحری جہاز نہ دوڑا سکتا۔ بہر حال ہماری ساری سوچ، خیال، اور کارنامے ہم سے باہر کی میٹیریل دنیا کے فریم میں ممکن ہیں۔چنانچہ”انسان کے علم کا سرچشمہ، اُس کا شعور دراصل اُس کے آس پاس کی دنیا ہے“۔اور یہی آس پاس کی میٹریل دنیا اُس کے عمل کا میدان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے انقلابی جماعت کسی پہلوان، پنڈت اور فرد ِ واحد کی خیالی اور خوابی باتوں،اور اُس کی خواہش یا حکم کو اپنے عمل کی بنیاد نہیں بناتی۔ وہ تو سماج کی اصل میٹریل حالت پہ نظر رکھتی ہے۔ سماج کی اپنی میٹریل ضرورتوں کو جانچ کر اُن کے حصول کے لیے کوششیں تیز کرتی ہے۔ اُس سارے کام کے لیے اس کا سماج کی اصل زندگی سے پیوست رہنا ضروری ہوتا ہے۔ ارادہ خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو تاریخی قوتوں کو ضرور دیکھنا ہوتا ہے۔

۔4۔  عمل

جاننے یا علم کے لیے چوتھی چیز موجود نہ ہو تب بھی ہماری جانداری کا استحقاق مجروح رہتا ہے۔ وہ چوتھی چیز ہے: عمل۔ عمل کمال کی چیز ہوتا ہے۔دیکھیے، انسان کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ اُن کی بر آوری کے لیے اس نے محنت کرنی ہوتی ہے، عمل کرنا ہوتا ہے۔ اس محنت یا عمل کو پیداواری عمل کہتے ہیں۔ اس عمل میں اس کا ڈائریکٹ آمنا سامنا خارجی دنیا سے ہوتا ہے۔ یہاں اب اُس نے نئے نئے تجربات کرنے ہوتے ہیں۔ یہی تجربات بعد میں اس کا علم بن جاتے ہیں۔ اور وہ اگلی بار اسی علم کو بروئے کار لاکر اپنے پیداواری عمل کو تیز اور زیادہ پیداواری بناتا ہے۔ نئی مشینیں بناتا ہے۔نہریں کھودتا ہے۔ سڑک اور پل بناتا ہے۔

یعنی علم، برین، اُس کو بیرونی دنیا کے وجود، حسیات کی موجودگی،اور بیرونی دنیا پہ انسانی عمل کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ اورانسانی سرگرمی کا مطلب ایک فرد نہیں بلکہ انسانی سماج ہوتاہے۔

اسی سارے پراسیس میں جہالت سے جاننے کی طرف، وہاں سے زیادہ جاننے کی طرف اور بالآخر مکمل جاننے کی طرف رواں سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسانی عقل پیدائشی نہیں ہوتی بلکہ ماحول اُس کے ذہن پر تاثرات نقش کرتا ہے۔ پھر مشق اور تجربہ اس کو ترقی دیتے جاتے ہیں۔ انسانی علم قدم بہ قدم نشوونما پاتا جاتا ہے، نچلی سے بلند تر سطح کی طرف، اتھلائی سے گہرائی کی طرف، ایک پہلو سے ہمہ پہلو کی طرف۔یہی مشاہدہ اور مشق سے حاصل شدہ قابلِ تصدیق حقائق ہی کو علم کا درجہ حاصل ہے۔

علم کبھی مکمل نہیں ہوتا۔آپ ایک معمہ حل کریں، ایک سوال کا جواب تلاش کریں تو وہ جواب اپنے اندر سے دو نئے سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔ علم نیچر اور میٹر پر پیداواری عمل کے دوران پیدا ہوتا ہے۔ بتدریج بڑھتا ہے۔ ایک وقت تک کی دریافتیں آنے والی نسلوں کے لیے مواد فراہم کرتی ہیں جس کی بنیاد پر  اگلی نسل اس کو آگے بڑھاتی ہے۔ یوں علم کبھی مکمل ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ جوں جوں انسان فطرت یا میٹر کی تسخیر کرتا جائے گا علم بڑھتا چلا جائے گا۔

یہ بھی دیکھیے کہ میٹر اور کائنات کے بارے میں جو نتائج جن تجربات سے اخذ کیے جاتے ہیں وہ ہر خاص و عام کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص، کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی مقام پر انہیں دوہرا سکتا ہے۔ ان سائنسی حقائق والے نتائج سے عمومی قوانین اخذ کیے جاتے ہیں۔

انسان پہلے پہل تو خارجی اشیا کو دیکھتا سونگھتا یا چکھتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے وہ ان اشیا کو سمجھنے لگتا ہے۔ یہ ادرا کی علم جب تک مزید عمل میں نہ جائے، ترقی نہیں کرسکتا۔ چلنے کا عمل آج بھی جانوروں جتنا رہتا اگر انسان پاپوش نہ بناتا، جانوروں کو سواری کے بطور استعمال کرتے کرتے ہائی ویز اور ترقی یافتہ ترین کار موٹر نہ بناتا۔ دوسرے شعبوں میں بھی یہی صورت تھی۔ اس لیے کہ انسان کا سماجی عمل صرف پیداوار کے اندر سرگرمی تک محدود نہیں ہوتا۔ اس سماجی عمل کی کئی شکلیں ہوتی ہیں: کلاس سٹرگل، سیاسی زندگی، سائنسی اور آرٹسٹی شاہ پارے۔دوسرے لفظوں میں ایک سماجی وجود کے بطور انسان سماج کی عملی زندگی کے سارے شعبوں میں حصہ لیتا ہے۔ بالخصوص کلاس سٹرگل انسانی علم کی نشوونما پر زبردست اثر ڈالتا ہے ۔

دوسرے لفظوں میں علم عمل کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ پرسیپشنل علم عمل سے حاصل (acquire) کیا جاتا ہے۔اور یہ پھر واپس عمل میں چلا جاتا ہے۔ حسیاتی علم پہ عمل ہوا تو علم بنا۔ اس علم کو مزید عمل میں ڈالا تو مزید علم بنا۔ اسی دائرے میں سے تو ہر ہر شعبہ کی سائنس نکلی، ٹکنالوجی نکلی۔ آلات، سادہ سے پیچیدہ آلات، ادنی سے اعلیٰ آلات۔ ایسے لگتا ہے کہ خارجی دنیا، برین، عمل اور آلات،گاڑی کے چار پہیے کی صورت موجود ہیں۔

اِدھر ہی کہیں پانچویں انگلی بھی سامنے آجاتی ہے: نظریہ۔ نظریہ لگتا ہے علم یا علوم کا نچوڑ بن چکا ہو۔ سچائی کا گہرا انعکاس کنندہ۔

ان سارے کاموں سے اُسے مزید علم حاصل ہوتا ہے۔ وہ مزید قوانین دریافت کرتا ہے اور خارجی دنیا کو مزید تسخیر کرتا جاتاہے۔ یہ سارا کام چونکہ مزدور پیشہ لوگ کرتے ہیں اس لیے وہ اپنا نظریہ بناتے ہیں۔ مارکسزم اسی نظریے کا نکھرا ہوا روپ ہے۔

علم (نظریہ) خود انقلاب و تبدیلی نہیں لاتا۔ وہ تو عمل کے گائیڈ اور ساتھی اور معاون کے بطور کام کرتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ عمل سے نظریہ وجود میں آیا، نظریہ سے عمل نہیں۔ ہاں، اب یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

***

نظریہ عمل کا رہنما بن جاتا ہے۔ یوں نظریہ اور عمل ایک طرح کی وحدت بناتے ہیں،ایک دوسرے کا سہارا اور جوڑی بناتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مدد لیتے ہوئے ایک دوسرے کو ڈویلپ کرتے جاتے ہیں۔ یہ دونوں متحرک رہتے ہیں۔ ہمہ وقت رواں، ہمہ وقت تازہ، ہمہ وقت جواں، ہمہ وقت مستعد۔ اور ہمہ وقت معروضی۔

سماجی شعور خیالات، نظریات، نقطہ  ہائے نظر، سماجی جذبات، عادات اور اطوار کا مجموعہ ہوتا ہے۔ انسانوں کے سماجی وجود کا انعکاس سماجی شعور کرتا ہے۔

طبقاتی سماج میں سماجی شعور ایک طبقاتی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ ایک خاص طبقے کے سیاسی، قانونی، اخلاقی، فن کارانہ اور دیگر خیالات ونظریات کا مجموعہ اُس کی آئیڈیا لوجی کی تشکیل کرتا ہے۔

ایک ایسا سماج جسے مخاصمانہ طبقاتی تضادات نے چیر پھاڑ کر رکھا ہو، وہاں ایک واحد آئیڈیا لوجی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ استحصال کرنے والے  اور استحصال کے شکار طبقات کی اپنی الگ الگ آئیڈیا لوجی ہوتی ہے۔ کلاس سٹرگل کی ایک شکل کی حیثیت سے گہری نظریاتی جدوجہد ہمیشہ ایک مخاصمانہ طبقاتی سماج کی خصوصیت رہی ہے۔

سماج کی  نشوونما میں خیالات کے فعال رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔نظریہ جب عوام الناس کے دل و دماغ میں گھر کر لیتا ہے۔تو پھر یہ ایک میٹریل قوت بن جاتا ہے۔ اس قوت کی موجودگی کے بغیر ہر عمل، ہر جدوجہد اور ہر لڑائی اندھیرے میں تیر چلانے جیسی ہے۔

اصل میں معروضی دنیا کے قوانین کو سمجھنا، اور نتیجتاً اس کی تشریح کرنا،سب سے اہم نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کو بدلنے کے لیے ان قوانین کے علم کو سرگرمی سے اطلاق کرنے کے قابل ہونا سب سے اہم ہے۔ تھیوری اہم ہے۔ یعنی انقلابی تھیوری کے بغیر انقلابی تحریک نہیں ہوسکتی۔ مگر تھیوری فقط اور فقط اس لیے اہم ہے کہ یہ عمل کو گائیڈ کرسکتی ہے۔ اگر ہمارے پاس زبردست تھیوری موجود ہے اور ہم اسے باربار رٹتے بھی ہیں مگر اسے عمل میں نہیں ڈالتے تو یہ ٹکے کی بھی نہیں رہتی۔

علم کا سرگرم کام خود کو محض ادراکی (Perceptual) سے استدلالی (Rational) علم کی طرف سرگرم چھلانگ میں اظہار نہیں کرتا بلکہ اسے استدلالی (Rational) علم سے انقلابی عمل کی طرف چھلانگ میں اظہار کرنا لازم ہے۔ وہ علم جو دنیا کے قوانین کو گرفت میں لیتا ہے،  اسے دنیا کو بدلنے کے عمل کی طرف دوبارہ رجوع کرنا ہوگا، اسے از سر نو پیداواری عمل میں استعمال کرنا ہے، انقلابی کلاس سٹرگل، اور سائنسی تجربے کے عمل میں۔ یہ تھیوری کو ٹیسٹ کرنے اور ترقی دینے کا پراسیس ہے۔ مزدور کلاس کی پارٹی اپنے نظریے کی بنیاد سماج کی موجودہ ساخت، سماج کے اندر کار فرما معاشی طاقتوں، سماج کے اندر مختلف طبقوں کی اصل حیثیت اور اِن مختلف طبقوں کے تصورات وغیرہ کے علم پہ رکھتی ہے۔

”سماجی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے جو انقلابی عزم و ارادہ درکار ہوتا ہے اس کی لازمی شرط سماج کے ابھرتے ہوئے عناصر میں انقلابی شعور کی تربیت ہے۔ شعور و احساس کی اس تربیت میں برسوں صرف ہوتے ہیں۔ یعنی سماجی انقلاب سے پیشتر فکری انقلاب لانا پڑتا ہے۔

سماج میں جابجا آپ کو یہ کوٹیشن نظر آتا ہے کہ علم بہت ضروری ہے۔ مگر ہم اکثر اوقات علم کے ساتھ عمل کے اہم رشتے کو بھول جاتے ہیں یا اسے ثانوی بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک دانشور نے ”علم“ کے باب کو علم کے بجائے ”عمل“ کے عنوان سے لکھا تھا۔

اگر آپ کوئی چیز بلاواسطہ جاننا چاہتے ہیں، تو آپ کو شخصی حقیقت کو تبدیل کرنے کے لیے عملی طور پر سٹرگل میں حصہ لینا ہوگا۔ علم کا یہی راستہ ہے جس پہ ہر شخص  نے سفر کرنا ہے۔کسی چیز کو جاننے کے لیے بالعموم اور اسے تبدیل کرنے کے لیے بالخصوص، اس چیز یا مظہر کے اندر کودنا پڑتا ہے۔ حصہ لینا پڑتا ہے۔ اگر آپ نے انقلاب کی تھیوری اور طریقے جاننے ہیں تو آپ کو انقلاب میں حصہ لینا ہوگا۔ سارا جینوئن علم بلاواسطہ تجربہ سے شروع ہوتا ہے۔

مگر ایک شخص ہر چیز کا ڈائریکٹ تجربہ نہیں کرسکتا۔ دراصل ہمارے علم کا بہت بڑا حصہ مثلا دوردراز کے خطوں او رماضی کے زمانوں کا علم ہمیں انڈائریکٹ تجربے سے ملتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کے لیے تو یہ علم ڈائریکٹ تجربے سے آیا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے پاس جوعلم ہوتا ہے  وہ دو طریقوں یعنی ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ تجربوں سے آتا ہے۔ جو علم میرے لیے ڈائریکٹ تجربے سے آیا وہ ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے اِن ڈائریکٹ تجربات سے آیا ہو۔ یعنی کسی بھی طرح علم کو ڈائریکٹ تجربے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے تو ”عالم ِ کل“ مضحکہ خیز شخص ہوتا ہے۔

”تھیوری اگر انقلابی عمل کے ساتھ کُنکٹڈ نہ ہوتو یہ بے مقصدہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ عمل کا راستہ اگر انقلابی تھیوری سے روشن نہ ہو تو یہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے  گا۔

اسی لیے ”ہمہ دان“ اور ”اتھارٹی“ جیسے الفاظ غلط الفاظ ہیں۔ ویسے بھی علم اتنا سچا، اتنا سائنسی ہوتا ہے کہ دیانت اور انکساری اس کی ضرورت ہیں۔چنانچہ دنیا کا سب سے مضحکہ خیز شخص وہ ہے جو ”عالمِ کُل“ ہے، ”دنیا کا نمبر ون اتھارٹی ہے“۔

عمل کے دوران اَن دیکھی صورتحال نظر آتی ہیں۔ اس لیے آئیڈیاز، تھیوریز، منصوبے  یا پروگرام عموماً جزوی طور پر اور کبھی کبھی تو مکمل طور پر تبدیل کیے جاتے ہیں۔ انقلابی وقت میں تو صورتحال تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اُس وقت اگر انقلابیوں کا علم  تبدیل شدہ صورتحال کی مطابقت میں تیزی سے نہیں بدلے گا تو وہ انقلاب کو فتح تک راہنمائی کے قابل نہ ہوں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے