جب تمھارے  اور میرے رشتے پہ نفرت کا بلوہ ہوا تو میری صرف سانسیں رہ گئیں، تم بلوائیوں سے مل گئے تو میں نہ جان پائی کہ تیرے پاس کیا بچا!۔ آج بھی جب میری نظر لوٹ جاتی ہے اس راہ پر تو میں سوچتی ہوں ، میں تو بے خبر تھی اسی لیے لوٹ آ ئی ہوں، تم سب جانتے ہوئے کس دل سے گئے تھے!۔میری آنکھوں نے تو اتنے اشک بہائے ہیں کہ ہر آرزو بھی بھی گئی ہے درد کی طغیانی میں، تمھارے پاس تو میری بے خبر محبت کی آ خری رات پڑی ہے جس سے لپٹی ہوئی ہیں میرے روح کی سرشاریاں، میرا آ خری عہدِ وفا جو محبت کا اسم اعظم تھا تم وہ کیسے بھول سکتے ہو! وہ لاحاصل تمنا بھی وہیں ہے جس کے گرد طواف کرتے کرتے ہم مدارِ محبت سے نکل کر ٹوٹے ہوئے ستارے بنے ہیں، وہ چھوٹے سے کپڑے، وہ چھوٹا سا جوتا، وہ ننھی سی گڑیا بھی تو وہیں پڑی ہے، جس کو پہننے والا جس سے کھیلنے والی ہم دنیا میں نہ لا سکے۔ وہ ساری تمنائیں جو مجھے درد دیتی تھیں وہ اب تمھارے پاس ہیں، کیوں کہ آ خری بلوے میں میری صرف سانسیں بچی ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے