۔377 ارب روپے کتنے ہوتے ہیں؟۔ ہم عام انسانوں کی گنتی کے حدود سے بہت باہر۔ حتیٰ کہ تصور کے حدود بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ بس بیرونی ایجنٹ وزیر خزانہ اور بیرونی ایجنٹ گورنر سٹیٹ بنک کو پتہ ہے۔ انہوں نے ہی اپنے آقا ادارے، آئی ایم ایف کے حکم پر ہم پہ377ارب روپے کے ٹیکس لگا دیے ہیں۔

                اور اِس ساری ٹیکس باری میں بیوروکریسی عدلیہ، فوج، حزبِ اقتدار، حزبِ اختلاف، میڈیا، بڑا تاجر،صنعتکار اور بڑا زمیندار سب متفق تھے۔ کسی ایم این اے نے استعفے نہیں دیا۔ کسی ممبر نے سپیکر کے سامنے دھرنا نہیں دیا۔ سب ہم صلاح تھے۔ اورصرف پاکستان کے اندر یہ طبقات متفق نہ تھے، اِن طبقات کے تو بیرونی اتحادی بھی ایک پیج پہ تھے۔ سارے بادشاہ، مغربی یعنی بورژوا جمہوری ممالک،اور ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں۔کپٹلزم اسی طرح بنا ہوا ہے۔

                یہ ٹیکس عام آدمی کے استعمال مثلاً گیس، چینی  اور آٹا وغیرہ پہ لگ گئے۔ خزانہ والا وزیر جھوٹ بولتا ہے کہ غریب عوام پہ ٹیکس نہیں لگائے گئے۔ ٹول ٹیکس، ہوٹل کھانے پہ ٹیکس، بجلی پہ ٹیکس،موبائل خریدنے پہ بھی اوراس میں بیلنس کارڈ ڈالتے وقت بھی ٹیکس،گاڑی خریدتے وقت ٹیکس، اپنی جائیداد فروخت کرنے پہ ٹیکس، زمین خریدنے پہ ٹیکس، پٹرول پہ ٹیکس،کوک پیپسی یا پانی بوتل خریدنے پہ ٹیکس، سگریٹ پہ ٹیکس، دوائی خریدنے پہ ٹیکس، موٹروے پہ سفر کرنے کا ٹیکس، کپڑے جوتے خریدنے پہ ٹیکس، ہسپتال میں داخل ہونے پہ ٹیکس، برتھ سرٹیفکیٹ پہ ٹیکس، ڈیتھ سرٹیفکیٹ پہ ٹیکس، زمینوں کی رجسٹری پہ ٹیکس، گھر میں پانی استعمال کرنے پہ ٹیکس، فصل منڈی لے جانے پہ ٹیکس، بجلی کے بلوں پہ موجود ٹی وی کا ٹیکس، سرکاری سکولوں پہ فیس کے نام پہ ٹیکس، کالجوں یونیورسٹیوں میں فیس کے نام پہ ٹیکس، گاڑیوں کو سالانہ ٹوکن کے نام پہ ٹیکس، اسلحہ لائسنس کو سالانہ رینیو کرنے کا ٹیکس، ڈرائیونگ لائسنس بنانے اور سالانہ رینیو کرنے کا ٹیکس، کسی بھی محکمے سے لائسنس یا این او سی لینے پہ ٹیکس، بجلی کے بلوں پہ نیلم سر چارج نامی ٹیکس، نکاح نامے پہ ٹیکس، بچوں کا ب فارم بنانے پہ ٹیکس،جی ایس ٹی ٹیکس، عدالت میں دعویٰ وغیرہ کرنے پہ ٹیکس، بجلی اور گیس کا میٹر لگانے سے پہلے سرکاری لوازمات کے نام پہ ٹیکس۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پہ کٹوتی والا ٹیکس، عمارت کا نقشہ پاس کروانے پہ ٹیکس، میونسپلٹی کے مختلف ناموں کے بے شمار ٹیکس۔۔۔ ٹیکس، ٹیکس، ٹیکس استان۔

                اور یہ سارے ٹیکس، ٹیکس بھرے سالانہ بجٹ کے منظور کرنے کے محض چھ ماہ بعد لگا دیے گئے۔۔۔۔ پھر بھی حاکموں کا پسندیدہ فقرہ ہوتا ہے کہ: ”عوام ٹیکس نہیں دیتے!“۔

                 حکمرانوں نے ساتھ میں ایک اور واردات بھی کر ڈالی۔ آج تک تو ہمارے ملک کے سربراہ اور وزیر خزانہ امریکہ کی مرضی سے لگتے تھے۔ اب عالمی کپٹلزم کو یہ کافی نہ لگا، اس نے سٹیٹ بنک پہ بھی قبضہ کر لیا۔ اب سٹیٹ بنک حکومت ِ پاکستان کے ہاتھوں میں نہیں رہا بلکہ سرمایہ داروں کی عالمی پنچایت کے حوالے ہوگیا۔مطلب یہ کہ ہماری معیشت جو کہ پہلے ہیرا پھیری اور بالواسطگی میں امریکہ کے حوالے تھا، اب دیدہ دلیر ی سے،اور ڈائریکٹ اُن کے قبضے میں دیا گیا ہے۔

                آپ وطن فروشی کسے کہیں گے؟۔ویسے یہ عجب ہے کہ عام آدمی کوئی اخباری بیان بھی دے تو غداراور پھانسی کا حقدار۔مگر حکمران پورا وطن بھی بیج دے تو اس پہ انگلی تک نہیں اٹھتی۔کلات کے بادشاہ نے پورا گوادر مسقط کے بھگوڑے شیخ کو مہمانی میں سونپ دیا تھا۔ مگر وہ بلوچ کا غدار نہیں بادشاہ ہی رہا۔ اگلے نے تحفے میں تیل کی بلوچ پٹی ایران کو دے ڈالی،کسی نے چوں تک نہ کی۔ اور اب حاکموں نے ملکی خزانہ، اور خزانچی، چابیوں سمیت آئی ایم ایف کو دے دیے مگر ایک بھی پیشانی شکن آلود نہ ہوئی۔نہ نوائے وقت نے لکھا، نہ جماعت اسلامی نے جلوس نکالا،اور نہ اُن کے اتحادی مغربی ممالک نے برامانا اور نہ اُن کے پروپیگنڈہ ادارے بی بی سی اور سی این این بولے۔ حب الوطنی کے انتہا پسند نعرے بنانے والوں کے قلم میں سیاہی نہ رہی، ملی نغمے گانے والے کو زکام ہوگیا،سوؤ موٹو دربار کی راہدار یوں میں کورنش بجا لانے میں مصروف ہے اور رائٹسٹ سیاستدان کے گلے میں گنڈیری پھنس گئی۔ پورا معاشی سسٹم امریکہ کو دیا گیا۔ او پر سے حکومتی ترجمان اخبارات اور ٹی وی ٹکرز نامی اونٹوں کی گردنوں پہ ”تھینک یو امریکہ“ کے بجائے اب ”تھینک یو آئی ایم ایف“ لکھتے جارہے ہیں۔ کہاں جائیے؟۔

                 ہمارا معاشرہ دہشت گردی اور بنیادی پرستی کا مارا ہوا ہے۔ بالخصوص یہاں کا سب سے گنجان آباد صوبہ اندھی عقیدت اور اندھی نفرت میں بٹا ہوا ہے۔ یہ ایک نعرے باز،شور پسند، بڑھک باز، اور دکھاوا پرست معاشرہ ہے۔ برداشت، اعتدال اور رواداری بہت عرصے سے دیوار میں چن دی گئی ہیں۔ غداری اور کافر کے الفاظ تو بہت عرصے سے لغت میں شامل تھے۔ اب تو سیاست و صحافت اور جلسہ جلوس میں باقاعدہ گالیاں دی جاتی ہیں۔

                عوام الناس کی الٹرا حب الوطنی اور فرقہ پرستی کے طویل اور شوق بھرے سجدوں نے زمیں کے بادشاہوں کو خدا بنا ڈالا۔ ہمارے عوام اپنی تاریخ و ثقافت چھوڑ دور دیس کی باتوں کو داستاں گو کے سُلا دینے والے طرز سے سننے کے عادی بن گئے ہیں۔ ٹریڈ یونین سے یتیم، ہمارا فرقہ پرست محنت کش اُڑی اُڑائی باتوں پہ سری لنکن کو قینچیاں مار مار کر ہلاک کرتا ہے اور پھر اس کی لاش کو جلا ڈالتا ہے۔

                 اس ”تقسیم معاشرے“کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران طبقات کو ہوتا ہے۔حالانکہ وہ آپس میں ایک ہیں۔ ستر سال سے مل کر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ مگر ساتھ میں یہ چمتکار بھی کرتے ہیں کہ عوام کے سامنے خود کو ایک دوسرے کا مخالف ظاہر کرتے ہیں۔ ٹی وی مباحثوں پہ یوں لگتا ہے جیسے وہ مختلف پارٹیاں ہوں۔ دکھاوے میں یہ ایک دوسرے کے خلاف بڑھک بازی سے جب چاہیں سماج کا درجہ ِ حرارت بڑھادیتے ہیں ۔ فروعی باتوں پہ ایسا شور برپا کروایا جاتا ہے  کہ اصل اور سنجیدہ ترین ِ مسائل اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اور اسی شور شرابے میں، توجہ ہٹا کر یہ حکمران طبقہ عوام کے نرخرے پر گرفت مضبوط کرتا جاتا ہے۔

                اسمبلی اراکین سارے کے سارے اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو serveکرتے ہیں۔اُن کے اللے تللے اور منافع کا سار ابندوبست عوام کی جیبوں سے ہوتا ہے۔ بہت ساری قومی جائیداد یں، ایف نائن پارک، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، سرکاری بجلی کمپنیاں، معدنی ذخائر،اور ساحل پہلے ہی فروخت،یا،رہن رکھے جاچکے ہیں۔ قرض بھی باہر سے کھل کے نہیں مل رہا ہے۔اب عوام کی قوتِ محنت کو لوٹنے کے علاوہ کچھ بچا ہی نہیں۔ اور عوام کو تسلسل سے لوٹتے رہنے اور اُن کی جیبوں سے تواتر کے ساتھ پیسے نکالتے رہنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ا نہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جائے، ایک دوسرے کے خلاف نفرت دلائی جائے۔ چنانچہ وہ یہی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حاکم، قاتل، غاصب خواہ شکل صورت بدلیں،خواہ پار ٹیوں کا نام الگ الگ رکھیں،مگر عوام کی محکومیت، لوٹ مار اور غربت جاری اور ساری رہتی ہے۔

                یہ درست بات ہے کہ حکمران طبقہ کے اندر مختلف گروہ ہوتے ہیں۔ یہ سب گروہ عوام کے خلاف ایک ہیں۔ مگر جب عوام کی تحریک کم زور ہو، وہ باشعور نہ ہوں اور اپنی محنت کشوں کی پارٹی میں منظم نہ ہوں تو حکمرانوں پہ اُن کا پریشر بہت کم پڑجاتا ہے۔ اور چونکہ گزشتہ آٹھ دہائیوں سے یہ پریشر موجود نہیں ہے۔ اِس لیے حاکم طبقات اس طرف سے بے خطرہوجاتے ہیں۔ تب وہ ایک دوسرے کے پیر کھینچنے لگتے ہیں۔ ”اصل“ کرسی پہ بیٹھنے کا معمولی مفاد انہیں مختلف سیاسی پارٹیوں میں بھرتی کروادیتا ہے۔ یہ پارٹیاں جیسے کہ ذکر ہوا عوام کو لوٹنے کے واحد ایجنڈے پر متفق ہیں۔ مگر عوام کو کس طرح لوٹا جائے اس پہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں زبردست اداکاری کرتے ہیں۔ اس قدر کامیاب کہ گو کہ عوام میں ہر شخص خود کو پی ایچ ڈی سمجھتا ہے مگر اس کے باوجود وہ لیڈروں کی اس نعرے بازی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس حد تک کہ اپنے اصل مسائل پر بولنا بھی بند کر جاتے ہیں۔ اتنی تندو تیز بحثیں اور نعرے بازیاں کہ عام آدمی کی آنکھوں اور دماغ پہ موجود بڑا موٹا پردہ مزید گہرا اور تاریک ہوتا جاتا ہے۔

                حکمران جو سب کے سب جاگیردار ہیں، سرمایہ دار ہیں، سردار ہیں، خان ہیں، پیر ہیں، اور ملٹی نیشنلز کے پارٹنر ہیں۔ اُن کا اصل مندر اور عبادتگاہ مارکیٹ، منڈی اور بازار ہوتا ہے۔ وہیں اُن کی جان اٹکی ہوتی ہے۔ وہیں سے انہیں منافع، قدر زائد،  روکڑ اور مال ملتا ہے۔”عوام نہیں دولت“اُن کا ایمان ہوتی ہے۔ یہ اوپری طبقات والے،دولت کا اپنی تجوری کی طرف جانے والا ون وے راستہ کبھی بند نہیں ہونے دیتے۔ اس راستے میں کسی بھی رکاوٹ کو وہ انتہائی سفا کی سے روند جاتے ہیں۔ وہ رکاوٹ خواہ سیاسی ہو، کلچر ل ہو، وطن ہو، ریاست ہو یا قوم ہو۔ یہ اتنا مضبوط رشتہ ہے کہ ساری دنیا میں اب یہی نظام چل رہا ہے۔ ”پیسہ پہلے“ والے اس نظام کے خلاف جو بھی اٹھے، خواہ فرد ہو، گروہ ہو، پارٹی ہو یا طبقہ، حکمران طبقہ اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ قتل، قتلِ عام،جیلیں، مارشل لائیں، شمالی علاقہ جات، چھانگا مانگا،۔۔۔۔یہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ دولت کی بلا روک آمد اُن کی زندگیوں کا لائف لائن ہوتی ہے۔  اُن کا دیوتا بس ایک ہے: پیسہ۔ وہی اول وہی آخر۔۔۔

                اور اس معاملے میں ساری دنیا کا حکمران طبقہ اُن کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر ملک میں موجود سرمایہ دار دوسرے ملک کے سرمایہ دار کا گرائیں، ہنڈی وال اور عزیز ہوتا ہے۔ یوں دنیا کے سارے سرمایہ داروں نے مل کر دو ادارے بنا لیے جو کسی بھی ملک کے سرمایہ دار کی پکار پہ مدد کرنے چوبیس گھنٹے الرٹ آن موجود ہوتے ہیں۔ اِن دونوں اداروں کے نام ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف ہیں۔ یعنی ہمارے اسمبلی ممبران، سیٹھ،ساہوکار، جاگیردار اور بیوروکریسی کی حفاظت امریکہ،برطانیہ،فرانس، جرمنی، سعودی عرب، کو یت، دبئی اور ہندوستان و چین سب کرتے ہیں۔ یہ ”ون پیج“ ساری دنیا کی ہے۔ عالمی ون پیج، بین الاقوامی سیم پیج۔ اور اگلوں نے یہ پیج کاغذ کا بنایا ہی نہیں۔ یہ لوہے سے زیادہ مضبوط ون پیج ہے۔ یہ مچھلی سے زیادہ پھسلنے والا پیج ہے۔ اور یہ شیطان سے زیادہ گمراہ کن ”ون پیج“ ہے۔ ہر چند کہ وہ موجود ہے مگر عام آدمی کو نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ درمیان میں جبل الموت اور حشیش اور گوپیاں اور شہد و شراب کی نہریں توجہ ہٹانے ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔۔۔

                اور کچھ نہیں تو بڑے بڑے حادثات کروا کر اور انہیں اپنے ہی زیرِ کنٹرول ٹی وی چینلوں (کارپوریٹ میڈیا)سے بریکنگ نیوز بنوا کر بار بار دکھایا جاتا ہے۔ یوں وہ عوام الناس کی توجہ اپنی لوٹ کھسوٹ کے سروس روڈ سے دوسری طرف موڑ لیتے ہیں۔

                ایک اور بات بھی ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں ذرا سی عوامی سرکشی پوری دنیا میں اِس ”دولت“ کے نظام یعنی کپٹلزم کے وجود کو ہلا ڈالتی ہے۔ اس لیے ساری دنیا کے دولت مند اُس سرکشی کی سرکوبی کے لیے ایک ہوجاتے ہیں۔خواہ ہر چھ ماہ بعد ٹیکسوں سے چھلکتا بجٹ لاگو کیا جائے، یا ہر پندرہ دن میں پٹرول مہنگا کیا جائے۔ انہیں سب ہضم ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں عوامی قوت نہ اپنی طبقاتی سیاسی پارٹی میں منظم ہے، نہ وہ طبقاتی شعور سے لیس ہے، اور نہ وہ متحد ہے۔

 اس لیے جینوئن سیاسی ورکر کے تین فریضے ہیں:۔

۔ 1۔ عوام کو طبقاتی سیاسی پارٹی میں منظم کرنا۔

۔ 2۔ انہیں طبقاتی شعور دینا۔

۔ 3۔ انہیں متحد رکھنا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے