جھوٹ جھوٹ، سچ سچ، قصہ یوں ہے کہ دو آدمی تیار ہوگئے کہ قندہار جائیں گے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہم پشتو نہیں جانتے۔ ایک بولا کہ مجھے ایک فقرہ آتا ہے یعنی ”خدا ئے دہ پارہ“۔ دوسرے نے کہا کہ اس طرح تو مجھے بھی ایک فقرہ آتا ہے کہ ”غل مہ خورہ“۔ تو اس طرح تو ہم بھوکے پیاسے نہ رہیں گے۔ لیکن دونوں کو معلوم نہ تھا کہ یہ جو فقرے ہم جانتے ہیں، ان کا مطلب کیا ہے۔

دونوں روانہ ہوگئے اور کندہار چلے گئے۔ رات پڑ گئی مسجد جا کر ٹھہر گئے۔ ایک شخص نے دیکھا کہ بلوچ آکر مسجد میں مہمان ہیں تو وہ اُن کی خیر خیریت معلوم کرنے آیا۔ اُس پشتون نے انہیں خوش آمدید کہا۔ بلوچ نے کہا ”غُل مہ خورہ(گوں نہ کھا)۔ اب پٹھان جو بھی بات کرتا بلوچ کہتا ”غل مہ خورہ“ تب کچھ لوگ جمع ہوگئے اور جھگڑا شروع ہوگیا۔ بلوچ مُکا اور لاتیں کھاتا یا مارتا اور ساتھ میں کہتا جاتا ”غُل مہ خرہ“۔ دوسرے ساتھی نے دیکھا کہ یہ ناحق اوربے سبب میرے ساتھی سے لڑ رہے ہیں، وہ اٹھا ہر ایک سے بغلگیر ہوا کہ ”خدائے دہ پارہ، خدائے دَہ پارہ“ (خدا کے واسطے)۔آخر قندہاریوں نے بلوچ کو چھوڑا۔ بلوچ نے کپڑے جھاڑے اور کہا شکر ہے ”خدائے دہ پارہ‘ کا، ورنہ میرے ”غل مہ خرہ“نے تو مجھے مروا دینا تھا۔

اسی طرح ایک اور قصہ ہے کہ ایک بلوچ لڑکی کی شادی ایک پشتون سے ہوگئی۔ موسم سردیوں کا تھا۔ زمستان جب ختم ہوا تو ایک دن خاوند اپنا پوستین لایا اور بیوی کو دے کر کہا کہ اسے پٹ کرو (یعنی چھپا دو۔۔۔پشتو)۔ بیوی نے پوستین اٹھا کر رکھ دیا۔وہ  جس وقت بھی کام سے فارغ ہوتی تو بیٹھ کر خاوند کے پوستین پہ لگے پشم کو اکھاڑنے لگتی۔ گرمیاں گزریں تو بیوی نے خاوند کے پوستین کے بال اکھاڑنے کا کام ختم کیا۔ اگلا زمستان آیا، خاوند پہ سردی نے زور دیا تو اسے پوستین کی ضرورت ہوئی۔ بیوی پوستین لائی اور خاوند کو دی۔ خاوند حیران ہوا کہا ”نیک بخت اس کا پشم کہاں گیا؟، اس کی اصل چیز تو پشم تھی“۔ بیوی نے جواب دیا ”تم نے مجھے کہا ”پٹ کرو“ (بلوچی میں پَٹ ”اکھاڑنے کو کہتے ہیں۔ مترجم)۔ساری گرمیاں اس کا پشم اکھاڑتے اکھاڑتے میری انگلیاں زخمی ہوگئیں“۔ خاوند نے دو ہتھڑ اپنے سر پہ مارے۔

تیسرا قصہ یوں ہے کہ لانگو قبیلے کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی۔ خاوند کی زبان براہوی تھی۔ ایک رات خاوند کو پیاس لگی۔ وہ نیم سویا نیم جاگا تھا،کہنے لگا ”دِیر  (پانی)“۔ (بلوچی میں:دُور۔مترجم)۔بیوی کچھ پرے کھسک گئی۔ کچھ دیر بعد خاوند پھر بولا ”دیر“۔بیوی کچھ اور پرے سُرک گئی۔ خاوند پھر بولا ”دیر“۔اب بیوی دور کھسکنے لگی تو پلنگ سے ہی نیچے گر گئی۔ دھڑام کی آواز سے خاوند جاگ گیا۔ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پوچھا:”تمہیں کیا ہوگیا کہ پلنگ سے خود کو نیچے گرادیا؟“۔میں کیا کرتی جتنا دور ہوتی تم پھر کہتے ”دیر“۔ خاوند ہنسنے لگا کہ میں تو تم سے پانی مانگ رہا تھا۔

چوتھی کہانی یہ ہے کہ نوشکی کا ایک آدمی مکران ملیشیا میں سپاہی تھا اور پنجگور میں ڈیوٹی کر رہا تھا۔ ایک روز اس کے افسر نے اُسے مرغی خریدنے ایک گاؤں بھیج دیا۔ سپاہی اپنے من میں بلوچی زبان پہ عبور رکھتا تھا۔ گیا ایک گھر کے دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ ایک عوت نے اُسے دیکھا۔ پوچھا لالہ کیا چاہیے؟۔ اس نے جواب دیا ایک چُک (پنجگور میں ”بوسہ“)۔ عورت بہت شرمندہ ہوئی۔ دل میں کہا۔ تورک جا بے غیرت۔میں نے تم سے اچھی طرح پوچھا اور تم نے مجھے ایسا جواب دیا کہ تمہاری زبان کاٹ دینے کے قابل ہے۔ گھر آئی اور اپنے خاوند کو بتایا:”دروازے پہ ایک شخص کھڑا ہے۔ میں نے اخلاق سے پوچھا کہ لالا کیا چاہیے۔ اس نے بہت بے شرمی سے کہا ایک ”چُک“۔ میں تو اس طرح ہوئی کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں دھنس جاؤں“۔ اس کا خاوند ڈنڈا لے کر باہر آیا۔دیکھا وہ شخص ابھی تک کھڑا ہے۔ پوچھا اڑے تم نے میری بیوی کو کیا کہا جب اس نے پوچھا کہ کیا چاہیے۔ اس شخص بے چارے کو کیا پتہ تھا کہ اُس  نے کوئی بری بات کہہ دی۔ کہا ”چک“چاہیے۔ خاوند اس پہ ٹوٹ پڑا اور ڈنڈوں سے اسے پیٹنے لگا کہ بے شرم بے غیرت بے حیا تمہیں شرم نہیں آتی۔ ہمارے گھروں میں آجاتے ہو اور ماؤں بہنوں کو گالیاں دیتے ہو؟۔ خوب اسے مارا پیٹا۔ اچھی طرح لہولہان کر کے چھوڑ دیا۔ وہ واپس تھانے گیا۔ اس کے ساتھی حیران ہوئے کہ اسے کیا ہوا۔”کس نے مارا تجھے؟“۔ اس نے اپنی روداد سنائی۔ اس کے ساتھی ہنسے کہ شوم تمہیں کہنا چاہیے تھا ”مرگ خریدنا ہے۔ جانتے ہو”چک“ کس کو کہتے ہیں۔ یہ تو براہوی اور پشتو زبان کا لفظ ہے یا خدا جانے اصلی لفظ ہے یا لوگوں نے لطیفہ کے بطور بنایا ہے“۔ لیکن بلوچی میں ایسے الفاظ ہیں کہ ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے الفاظ نہیں سمجھتے اور اس طرح لطیفے بنتے ہیں۔

میں اپنے ایک عزیز ہ کی بات سناتی ہوں۔ اس کی ایک مکرانی سہیلی ہے۔ ان دونوں مین زبردست مہرو محبت تھی۔ زبان کے اوپر بات کرتے ہوئے اس نے اپنی کہانی سنائی۔ کہا ”ایک روز میرے دروازے کی گھنٹی بجی۔ نوکر نہیں نہ تھا۔ میری بیٹی دروازے پر گئی۔ وہ وہاں سے بہت پریشان لوٹی۔ میں نے پوچھا“ کون ہے؟۔ خیر ہے تم کیوں یوں پریشان ہو؟“۔ اس نے کہا خالہ مریم کا ڈرائیور تھا۔ اس نے کہا بی بی کپتہ (گر گئی ہے)۔ میں بہت خوفزدہ ہوئی ”ارے تمہیں پوچھنا چاہیے تھا کہ سیڑھیوں سے گر گئی؟کیسے گری؟۔ بیٹی نے بتایا کہ میں نے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ ”بیٹا“۔ اللہ خیر یہ تو ایک اور پریشانی ہے۔ پتہ نہیں کس بچے کے اوپر گر گئی۔ میں نے دل میں کہا مریم تو امید سے ہے۔ کہیں ٹھوکر کھا کر پیٹ میں موجود اپنے بچے کو نقصان نہ دیا ہوورنہ وہ عام گرنے کی ہمیں کیوں خبر بھیجتی۔ انسان تو سوبار گرجاتا ہے۔ خدا نہ کرے ایسی بات تو ہے کہ اس نے مجھے خبر کردی۔ میں نے اپنی چادر اٹھائی۔ بیٹی کو کہا جب تک کوئی گاڑی آئے مجھے قرار  نہ آئے گا۔ رکشہ لے کر ہسپتال جاؤں گی۔بیٹی نے مجھے کہا ”کیا خبر کہ وہ کس ہسپتال میں ہے۔ اس کے گھر چلتے ہیں وہاں سے معلوم ہوگا“۔ میں نے بیٹی کی بات مان لی اور مریم کے گھر آگئے۔ گھر کے سامنے رکشہ روکا اور اندر داخل ہوئے۔ وہاں کمرے کے دروازے کے ساتھ بہت سارے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا مریم تو پلنگ پر سو رہی ہے۔ اور میری جیسی بہت ساری دوست و سہیلیاں بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔ پلنگ کے پہلو میں پنگھوڑا رکھا ہے۔ چائے مٹھائی اور خوش گپی جاری ہے۔ میں بن دیکھے اورسوچے گئی‘مریم کے سرکا بوسہ لیا اور بیٹھ گئی۔ بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے ایک کہنے لگی۔ مریم کا ڈرائیور طوفان کی طرح آیا اور دروازے پر میرے نوکر سے کہا کہ اپنی مالکن کو بتا دو کہ ”بی بی کپتگ، نرینہ بچہ ہے“۔ اب میں نے اپنی کہانی سنائی کہ میں کیا سمجھی اور پھر کس بدحواسی میں یہاں آئی۔ اس لیے کہ ہمارے علاقے میں کہتے ہیں کہ فلاں نے بیٹا دیکھا یا فلاں کے ہاں بیٹا ہوا ہے،”کپگ“نہیں کہتے ۔اب ساری سہیلیاں میری بدحواسی سے آنے پر ہنس دیں۔

اب میں اپنی اسی طرح کی ایک کہانی بتاتی ہوں۔رسالہ ”تپتان“ کے واجہ کریم بلوچ نے مجھے فون کیا کہ ہم ”تپتان“ میں گل خان نصیر پہ خصوصی شمارہ نکال رہے ہیں۔ آپ اُن کے بارے میں کچھ لکھ دیں۔ جو کچھ میں لکھ سکی میں نے لکھ لیا اور واجہ کو بھیج دیا۔ اس نے بھی مہربانی کی اور شائع کردیا اور ایک شمارہ میرے لیے بھیج دیا۔ میں نے دیکھا کہ میری ”دادا“ کو واجہ کریم نے داد ا بنادیا۔ میں حیران ہوگئی۔ کچھ ہی دیر میں واجہ کریم کا فون آیا۔ اس نے میرے مضمون کی بہت تعریف کی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیااور اس سے کہا کہ آپ کی تعریف سر آنکھوں پہ مگر آپ نے میری ”دادا“ کو دادا بنادیا۔ ہم نوشکی چا گئے، خاران اور شالکوٹ کے علاقے میں بڑی بہن کو ”دادا“ کہتے ہیں، بلوچی اور براہوی دونوں زبانوں میں۔ واجہ نے مجھ سے معذرت کر لی اور کہا کہ بڑی بہن کے لیے یہ لفظ میں پہلی بار تم سے سن رہا ہوں۔ دوسرے شمارے میں معذرت کر کے ضرور تصحیح کردوں گا۔ مگر نہیں کیا۔

ایک روز بھائی بشیر احمد بلوچ سے بات چیت کے دوران میں نے یہ بات کہہ دی۔ واجہ نے کہا کہ ہم بھائی کو ”لالہ“ کہتے ہیں اور بہن کو ”ادّا“ کہتے ہیں۔ جہلاوان اور سراوان کے بلوچ اور براہوئی بولنے والے بلوچ دونوں،بھائی کو ”ادّا“ کہتے ہیں اور بہن کو ادّی“ کہتے ہیں۔پتہ نہیں یہ ”دادا“ آپ لوگ کہاں سے لائے؟“۔

میں نے کہا خدا جانے یا آپ زبان دان جانتے ہوں گے۔ شاید پشتو سے ہم نے لیا یا انہوں نے ہم سے لیا۔ اس لیے کہ کوئٹہ کے پشتون بھی بڑی بہن کو ”دادا“ کہتے ہیں۔ ویسے تو پشتو میں بہن کو ”خور“ یا خور کئی‘‘کہتے ہیں۔

مگر میری ”دادا“ کو واجہ کریم نے دادا بنادیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے