روسی کہانی

 

پلیگا ایک ان پڑھ عورت تھی۔ مگر اُس کا خاوند ایک خواندہ اور فہمیدہ کار ی گر تھا۔ اُسے اس بات پہ سخت افسوس تھا کہ اس کی بیوی ناخواندہ ہے۔

ایک روز باتوں باتوں میں اُس نے دیکھا کہ بیوی کا موڈ ٹھیک ہے اور چہرہ روشن ہے تو اس نے کہا:”پلیگا میرا دل کرتا ہے کہ تم کم از کم اتنی توپڑھ جاؤ کہ اپنا نام لکھ سکو۔ تمہارا نام بہت آسان ہے“۔

”مگر میرے پڑھنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟“۔ پھر شوہر کا انتظار نہیں کیا اور کہا ”میری انگلیاں اچھی طرح قلم نہیں اٹھا سکتیں، میں کیسے لکھ سکوں گی۔ بہتر یہ ہوگا کہ تم میرا پیچھا چھوڑ دو اور اپنے بچوں کی تعلیم کی کوشش کرو“۔

شوہر نے پلیگا کی بات سنی تو خاموش ہوگیا۔ اور اُس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ بیٹھ جائے اور اس کے ساتھ مغز مارے۔

ایک روز وہ پلیگا کے لیے ایک کتاب لایا۔ یہ روسی زبان سیکھنے کی پہلی کتاب تھی۔ وہ خوبصورت طرز سے لکھی اور بنائی ہوئی تھی تاکہ پڑھنے والوں کے لیے آسانی ہو اور وہ جلد از جلد زبان سیکھ سکیں اور انہیں پڑھنا آسان لگے۔ پلیگا نے کتاب کے ورق دائیں بائیں کیے، دیکھا اور پھر گھر کے کسی کونے میں رکھ دیا۔ اُس نے سوچا کہ بچوں کے پڑھنے  کے کام آئے گی۔

پھر شوہر کا کوٹ اٹھا لیا اور جلد جلد پھٹی ہوئی جگہوں پہ رفو اور پیوند لگانے لگی۔ اس کا ہاتھ کوٹ کی اندرونی جیب پہ گیاتو کپشک کی آواز آئی۔ اس نے دل میں کہا شاید پیسے کانوٹ ہوگا۔ مگر ہاتھ ڈال کر نکال دیا تو وہ ایک خط تھا جسے خوشبو لگایا گیا تھا۔ وہ خط بہت خوبصورت تھا۔ پلیگا کا دل بہت ملول ہوگیااور وہ مرجھا گئی۔ اس نے دل میں سوچا کہ ”اچھا، اب میں سمجھی کہ آنجناب مجھ سے کیوں دور دور رہتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ وہ کسی دوسری کے عشق میں گرفتار ہے۔ مجھے احمق سمجھتا ہے۔

”سچ ہے کہ میں بے علم ہوں جاہل ہوں۔ اب لازم ہے کہ میں پڑھ لوں“۔

اُس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں پڑھنا سیکھ جاؤں تو پھر کوئی مجھے دھوکہ نہ  دے سکے گا۔ اب اس کے دل میں پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اب اس کا دل نہ چاہتا تھا کہ کوئی اسے ان پڑھ جاہل کہے۔

شوہر کی جیب کے خط نے اس کے دل اور دماغ میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ اس نے پڑھنا شروع کیا۔ علم سیکھنے کے لیے اس نے دن رات ایک کردیے۔۔ ایک ماہ گزرا،دو ماہ گزرے اور تین ماہ۔ اب وہ اس قابل ہوگئی کہ ہر کاغذ پہ لکھا پڑھ سکے ۔

ایک دن اس کا شوہر کام کے سلسلے میں باہر گیا تو وہ پیٹی سے تین ماہ قبل والا کاغذ نکال کر لائی جو کہ اُس کے شوہر کی جیب سے نکلا تھا۔ اس کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا کہ وہ اب یہ کاغذ پڑھ سکتی ہے۔ اُس نے اپنے دل میں کہا کہ ”ایک بار خط پڑھ لوں۔ اس کے بعد عالی جناب کی خبر لوں گی“۔

کاغذ پر یوں لکھا تھا:

پیارے نکولاوچ۔ اپنے وعدے کے مطابق کتابیں بھیج رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ دویا تین ماہ کے اندر اندر تمہاری اچھی بیگم جہالت کے سیاہ پردے سے باہر نکلے گی۔ میرے رفیق، اُسے سمجھا دو کہ آج کے دور میں جاہل رہنا کس قدر بری بات ہے۔ اسے یہ کتاب ضرور پڑھوانا تا کہ کوئی بھی اُسے ان پڑھ اور جاہل نہ کہہ سکے۔ جیسے کہ تم جانتے ہو ہم جہالت مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس میں ہمیں روز بروز کامیابی مل رہی ہے۔ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے پہلے اپنے گھر سے بے علمی کا سیاہ پردہ دور کردیں۔ تم پلیگا کو ضرور پڑھاؤ۔

 

اور خیریت ہے۔

نیک خواہشات کے ساتھ

تمہاری دوست

ماریا بلوفینا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے