اے ارض ِ خوابِ حسیں سلامت

کہ میرے پْرکھوں کی بجھتی آنکھوں نے تجھکو دیکھا۔۔۔

تو تجھ کو تعبیر کر چھوڑا۔۔

تیری ہی خاطر تیاگ ڈالے حقیقتوں کے سبھی میّسر خزانہا? عظیم سب نے

دھڑکتے بوڑھے، جواں دلوں نے تو اپنے جسموں کی روح تیری اداس مٹی میں  پھونک ڈالی۔۔۔

تیرے خرابوں کو نقش بخشے۔۔۔

تْو بے زباں تھی!۔

زبان دی بولنا سکھایا۔۔۔

وہ لفظ تجھ کو عطا کیئے جو زمانے بھر کی سبھی زبانوں سے خوبصورت تھے

پْرکشش تھے۔۔۔

اے ارضِ خوابِ حسین تْو نے یہ مْول پایا  ہمارے آباء  کی دلبری کا؟

کہ آج اْن کی اگلی نسلوں کے خواب تجھ کو نہیں گوارہ؟

ہمارے کڑیل جواں جو تیری اداس مٹی کو سبز کرنے گھروں سے نکلے تھے "لاپتہ” ہیں۔۔۔

اور انکے پیچھے جو رہ گئے  ماتمی ہیں سارے۔۔۔

ہم اپنے تہوار اپنی رسمیں بدل چکے ہیں!۔

سبھی دنوں نے سیاہ پوشاک اوڑھ لی

اے ارض ِ خواب حسین سلامت

ہماری آنکھیں لہو لہو ہیں!۔

ہماری گویائیاں سلب ہیں!۔

ہمارے زخموں پہ کوء مرہم

دلوں کی قبروں پہ کوء پرسے کا اک دیا بھی نہیں جلایا۔۔۔

ہماری بخشی ہوء زباں سے

ہمی کو غدّار کہہ دیا ہے!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے