جی بھر کے جفا کرتے ہو، ہوتے ہو خفا بھی

دیتے ہو کیا خوب پہ بے جرم سزا بھی

 

لبے طور سے اِس دور میں ہر شخص ہے تنہا

محفل میں غنیمت ہیں نہ ارباب وفا بھی

 

بارود کی ہے بُو، نہیں پھول کی خوشبو

اک بوجھ میرے ذہن پہ ہے بادِ صبا بھی

 

ڈر تے ہو لٹیروں سے رہ زیست میں یارو

ماں کی دعا ساتھ ہے فضلِ خدا بھی

 

ہے ناؤ بھی منجدھار میں، ہیں طوفان کے آثار بھی

خیر کرے  آپ خدا، ہے تیز ہوا بھی

 

مُخلص قیادت مُلک کو ہوگی کیا نصیب

کردور دَور بتلا، ہو اَب تو دوا بھی

 

طوفان حواد ث میں بھی کہتا ہے یہ احساس

ہو سکتے حبیبّ نہیں اُن سے جدا بھی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے