ششک تحریک

بلوچستان کے وسیع علاقے میں بارانی کاشتکاری ہوتی ہے۔ یہاں سردار زرعی ٹیکس کی صورت میں کسان سے پیداوار کاچھٹا حصہ لیتا تھا۔ چھ کو بلوچی میں شش کہتے ہیں۔ چنانچہ ”ششک“۔ بلوچستان کی زرعی معیشت نیم خودمختار سرداریوں اور جاگیر داریوں میں بٹی ہوتی تھی۔ ہر سردار فیوڈل، اپنے علاقے میں کسانوں پرٹیکس ریٹ فکس کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔اس لئے بلوچستان میں کبھی بھی ایک جیسا ٹیکس کا نظام مروج نہ ہوا۔ہر جگہ اس کی صورت مختلف ہوا کرتی تھی۔

ہم آپ کو یاد دلائیں کہ 1970کی انتخابی مہم کے دوران نیشنل  عوامی پارٹی نے عوام کے لئے بہت پر کشش انتخابی نعرے دیئے تھے۔ اُن میں سے ایک یقین دہانی یہ تھی کہ کاشتکاروں کو ششک کی لعنت سے نجات دلائی جائے گی۔یعنی اُن سے پیداوار کا چھٹا حصہ وصول نہیں کیا جائے گا۔

جب یہ پارٹی برسر اقتدار آئی تو کسان عوام بہت خوش ہوئے۔ مگر اُن کی خوشی حیرت اور دکھ میں تبدیل ہوگئی جب انہوں نے دیکھا کہ بجائے ششک ختم کرنے کے سردار ششک کی وصولی  کے لئے کاشتکاروں کے خرمنون پر آن موجود ہوئے۔ کسان ہکا بکا رہ گئے۔ انہوں نے اِن سرداروں کو اُن کے انتخابی وعدے یاد دلائے،فریادیں کیں، وفود بھیجے، پریس کانفرنسیں کیں مگر سردار اب سب کچھ بھول چکے تھے۔

چنانچہ 1972کی ربیع کی فصل اٹھانے کے موقع پر جھالاوان بالخصوص جھل جھاؤ، کولواہ اور گریشہ کے کاشتکاروں نے ششک کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔سردار عوام کی طرف سے انکار کا تصور تک نہیں کرتے تھے۔ انہیں عادت ہی نہ تھی۔ چنانچہ”عوامی حکومت“ غصہ سے آگ بگولہ ہو گئی اور 4 جون 1972 کو کاشتکاروں پر مسلح حملہ کر دیا۔ گولیاں چلیں، کھلیان جلے مگر کاشتکاروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک کاشتکار کرم داد چنال حملہ آوروں کی گولیوں سے شہید ہو گیا۔

دراصل، یہ تحریک ڈبل ٹیکسوں کے خلاف تھی جس سے فطری طور پر ملکیت کامسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ قصہ یہ ہے کہ یہ زمین ایک زمانے میں ریاست قلات کی تھی جس نے سرداروں کو ایک معین وقت کے لئے  ریونیو اکٹھا کرنے کا حق دیا تھا۔ اب وہ ریاست ختم ہو چکی تھی اور ٹیکس جمع کرنے کا سابقہ اختیار بھی معدوم ہو چکا تھا۔ اب یہ زمین یا تو نئی ریاست یعنی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی تھی، جسے زمین پر ٹیکس لینا چاہیے تھا، یا پھر یہ زمین اُن لوگوں کی تھی جو در حقیقت اُسے کاشت کرتے تھے۔ کسانوں نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ بہ یک وقت حکومت کو بھی ٹیکس دیں اور سردار کو بھی ششک دیں۔چنانچہ کسانوں نے سرداری ٹیکس دینے  سے انکار کر دیا۔

صوبائی حکومت کی جوابی کارروائی بہت تیز تھی۔ فیوڈلوں کے طبقاتی مفاد کو سخت دھچکالگنے کے علاوہ ناراضگی کی وجہ یہ بھی تھی کہ مزاحمت کے علاقے سے دو بڑے چیف متاثر ہو رہے تھے۔ چنانچہ صوبائی ملیشیاء، پولیس اور فیوڈلوں کے باڈی گارڈ جون کے  مہینے میں فُل ایکشن میں آئے۔

سرداروں کے باڈی گارڈ در اصل دہشت کے سکواڈ  ہوتے تھے۔(اب بھی ایسا ہی ہے)۔ سردار عام لوگوں کو ”سیدھا“ رکھنے  اور مڈل کلاس کو ڈرانے کے لیے ہی تو باڈی گارڈ رکھتے تھے (ہیں)۔ وہ باڈی گارڈ سردار کی خاطر ریونیو اور ٹیکس وصول کرتے تھے (ہیں)اور فیوڈل نظام کے استبدادی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دیتے تھے  (ہیں)۔ یہ سکواڈ ابھی تک موجود ہیں۔

چنانچہ جھل جھاؤ میں بزنجو، مینگل اور محمد حسنی قبیلوں سے ایک ہزار مسلح افراد نے کسانوں پہ حملہ کر دیا۔ ایسا حملہ کہ دہشت و وحشت کی تمام حدود کو پھلانگ دیا گیا۔ پہلے ہی ہلے میں جھل جھاؤ کے 400 سے زائد کسان گرفتار کرلیے گئے۔ ہزاروں کو جھاؤ، آواران اور دوسری جگہوں سے نکال باہر کر دیا گیا۔

جھل جھاؤ کے مظلوموں کی جدوجہد پورے بلوچستان میں رنگ لانے لگی۔ اور جگہ جگہ سے کسان بغاوتیں ابھرنے لگیں۔ مکران، کچھی، راڑہ شم، اور چاغی سے ”کسان ابھار“ کی خبریں آنے لگیں۔

کچھی تو بالخصوص جاگیر داروں کی نارروائیوں کی آماجگاہ تھا۔ٹیکسوں کی جبری وصولی کے سلسلے میں وہاں کی کسان آبادی پر جو مظالم روا رکھے گئے، ان پر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں قتل کرنا، ان کے گھروں کو جلانا اور انہیں بے عزت کرنا عام باتیں تھیں۔  بالآخر وہاں کے کسانوں نے غازی خان بنگل زئی کی قیادت میں جاگیرداروں  کے خلاف مدافعت کا مظاہرہ کیا۔ اس جدوجہد میں غازی خان کو قتل کر دیا گیا۔

اسی طرح راڑہ شم میں غرشین سردار، لونی  سرداراور سرکار کی ملی بھگت سے کسانوں پہ ناروا ششک مسلط تھی،اُس کی وصولیابی کے خلاف زبردست آواز بلند ہوئی۔ منگوچر میں بھی اس ظالمانہ ٹیکس کا ہولناک کرشمہ رونما ہوا۔ جہاں سرکاری روایت کے مطابق 9 مظلوموں کو ہلاک اور بچوں عورتوں سمیت40 افراد کو زخمی کر دیا گیا۔

اسی دوران ایک مرتبہ پھر جھل جھاؤ میں جاگیر داروں کے مسلح جتھے کے ہاتھوں ایک کاشتکار دلمراد، اس کے بیٹے محمد حسین اور بہو شہید کر دیے گئے۔ نیز وہاں کاشتکاروں کی تیار فصل  کے کھلیان اور گھروندوں کو نذر آتش کرنے کی سفاکانہ واردات ہوئی۔

پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت بلوچستان کے کسانوں کی عارضی ہمدردیاں حاصل کرنے  کے لئے تگ و دو کرنے لگی۔ چنانچہ ششک کے خاتمے کے لئے ایک غیر واضح اور مبہم آرڈیننس کا اعلان کیا گیا۔ ششک آرڈیننس اسمبلی میں پیش ہوا تو پیپلز پارٹی ہی کا لیڈر غوث بخش رئیسانڑیں بہت بے چین ہوا۔ اس کی کوشش تھی کہ آرڈیننس سرے سے پیش  ہی نہ ہو مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوا۔ البتہ وہ اس میں ترمیم لانے میں کامیاب ہوا۔ اس کا مطمع نظر یہ تھا  کہ:

1۔ ششک کو سرداری ٹیکس کے نام سے نہ پکارا جائے اور

2۔ ششک کو حق ِمالکانہ سے جدا کیا جائے۔

نیپ کے دانشوروں نے کسانوں کی اس تحریک کو امریکی سامراج کے اشارے اور بھٹوکی پشت پناہی کا نتیجہ قرار دیا۔ چنانچہ کسانوں اور ان کی لیڈر شپ کے خلا ف وطن کے غدار، بلوچ قوم  کے جیسے فتوے عائد کیے۔

بعد میں پیپلز پارٹی نے روایتی طور پرترمیمات بھرے اپنے مبہم آرڈیننس کو صوبائی اسمبلی سے پاس کروایا۔ گرفتار کسانوں کو روایتی طور پر رہا کر دیا اور روایتی طور پر ہی صوبہ بدر کسانوں کو واپس بلا کر انہیں غیر ملکی ”دوروں‘’‘ پر بھیج دیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی اپنی روایت کے عین مطابق اس کسان تحریک کوبھی سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ششک کی زبردست کسان تحریک بڑی کامیابی کے ساتھ، بڑی عمدگی سے، اور بڑی کلاکلاری کے ساتھ دبا دی گئی۔

 

پٹ فیڈر اور اُس کی کسان تحریک

انیسویں صدی کے نامور شاعر تاج محمد تاجل نے کسانوں کی بدحالی کو دیکھ کر جاگیرداروں کو یوں کوسا تھا:

تم اگر انسان ہوتے

صاحب ایمان ہوتے

پاک پرودگار کی قسم

ہر گز نہ کرتے یہ ستم

وہ بھی تو انسان ہیں

تو یہ حیوانی سلوک

اس پر ستم فاقہ وبھوک

حیران ہوں کہ روز جزا

تم کو ملے گی کیا سزا؟

بلوچستان بھر کی طرح نصیر آباد کے میدانی بارانی زمینیں بھی  قدرتی طور پر زرخیز تھیں۔ صرف پانی کی کمی تھی۔

انگریز جب آیا تو اُس نے کشمور کے مقام سے زرعی مقاصد کے لیے  بیگاریکے نام سے ایک نہر کھدوائی۔ اس نہر کی ٹیل سے نور واہ کے ذریعے نصیرآباد کے کچھ علاقے بھی سیراب ہونا شروع ہوئے۔

اس کے بعد گڈو ہی سے شاہی واہ نکالی گئی۔ شاہی واہ اور اس کی  ذیلی شاخوں اوچ اور مانجوٹھی شاخ سے نصیرآباد کے علاقے ملگزار سے جھٹ پٹ تک آباد ہونا شروع ہوئے۔ چتن پٹی سے لیکر جھل مگسی تک برٹش سرکار نے اسے توسیع دی۔ دوسری طرف بیگاری واہ سے مغرب کی طرف گنداخہ اور گوٹھ غلام محمد جمالی کے علاقے آباد ہوئے۔

بیگاری واہ اور شاہی واہ غیر دائمی نہریں تھیں۔ خریف کے سیزن میں جب بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے دریا میں پانی زیادہ ہوتا تھا تو ان نہروں میں بھی کچھ  مقدار میں پانی آتا تھا۔ چنانچہ پانی کی اِس دستیابی سے پہلے تالابوں کو بھرا جاتا تھا۔اس کے بعد انسانی خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وہ فصلیں کاشت کی جاتیں جنہیں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں جو، جوار، تِل، باجرہاورسرسوں وغیرہ شامل تھے۔

انگریز نے 1857ء کی جنگ آزاد ی میں شامل یہاں کے لیڈروں دل مراد خان کھوسہ، دریا خان جکھرانڑیں اور سید عنایت شاہ کو گرفتار کرکے کالا پانی بھیجا۔اور ان تینوں قبائل کے ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین اپنے قبضے میں لے کر اپنے وفاداروں میں تقسیم کی۔

اسی طرح      انگریز نے اپنے بے شمار وفاداروں کو خطاب اور ٹائٹل عطا کر دیے۔ نام نہیں لوں گا، کسی کو ”خانصاحب“ کسی کو ”ممبر آف برٹش ایمپائر“ MBE، اور کسی کو ”خان بہادر“ کا خطاب عطا کیا۔ یوں بہت بڑی زمینیں ان بااثر قبائلی چیفس کے پاس چلی گئیں۔

۔1932ء میں سکھر بیراج کی تکمیل کے بعد دریائے سندھ کے دائیں کنارے دادو اور رائیس کینال کے ساتھ کیر تھر کینال بھی نکالی گئی۔ جیکب آباد کے قریب مولاداد کے مقام پر کیرتھر کینال بلوچستان میں داخل ہوتی ہے۔ اسی نہر سے اوستہ محمد کا اندرون کا سارا علاقہ طور پر آباد ہونا شروع ہوا۔

اسی طرح 1967ء کو ایوب دور میں  گڈو بیراج سے ”پٹ فیڈر“نہر  نکالی گئی۔  یہ ون یونٹ کا زمانہ تھا۔  اعلیٰ عہدوں پر سارے  افسر پنجاب سے تھے۔ پٹ فیڈر کی زمینوں کو آباد کرنے کے نام پر پنجابی آباد کاروں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔چونکہ لاہور ون یونٹی دارالحکومت تھا۔ اس لیے پنجابی آباد کاروں کو پٹ فیڈر میں زمینیں اپنے نام کروانے میں آسانی تھی۔

اوچ کینال 1901ء میں اور  مانجوٹھی کینال کی تکمیل 1909 ء میں ہوئی۔

زرخیزی اور بہترین پیداوار دینے کی وجہ سے پٹ فیڈر کی زمینوں پر جھگڑے شروع ہوئے۔مقامی کسانوں اور پنجابی آبادکاروں میں مختلف مقامات پر مسلح لڑائیاں ہوئیں۔ فیصلہ کن لڑائی موضع بیدار میں ہوئی۔ جہاں پنجابی آباد کاروں کا بہت نقصان ہوا۔ پنجابیوں کا قائد تاج محمد پنجابی قتل ہوا۔ جس کے بعد پنجابی آباد کار بیدار اور بالان شاخ سے نقل مکانی کرنے لگے۔

غیر مقامی آباد کاروں کی بیدخلی کی جدوجہد تک تو سردار، میر، اورمعتبر قومی حقوق  کی مشترکہ جدوجہد کے نام پر ساتھ ساتھ تھے مگر پنجابی آباد کاروں کی بیدخلی کے بعد نصیر آباد میں طبقاتی کشمکش کا آغاز ہوا تھا۔

 

بھٹو کی زرعی اصلاحات

اسی دوران1972 میں  پیپلز پارٹی کے چیئرمین،مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو  نے ملک میں 20مارچ  1972 کو مارشل لاء ریگیولیشن115 کے ذریعے،زرعی اصلاحات کیں۔ جن کے تحت  کوئی فرد 150، ایکڑ نہری یا 200ایکڑ بارانی، یا 15000، پی آئی یو (پروڈیوس انڈیکس یونٹ) سے زائد زرعی اراضی نہیں رکھ سکے گا۔ اراضی کی حد ملکیت خاندان کے بجائے فرد کی بنیاد پر مقرر کی گئی۔ بڑے زمینداروں سے وا گزار ہونے والی زمین بے زمین کاشتکاروں میں مفت تقسیم ہونی تھی۔ آبیانہ، مالیانہ، بیج کی قیمت اور دیگر ٹیکس مزارع یا ہاری کے بجائے زمیندار نے ادا کرنے تھے۔ مزارعین سے بلا معاوضہ خدمت اور جبر ی لگان کی وصولی پر پابندی لگادی گئی۔ ٹریکٹر یا ٹیوب ویل کے مالک زمینداروں کو حد ملکیت میں 20000 پی آئی یو کی چھوٹ دی گئی۔تمام شکار گاہیں واپس لے کر کسانوں میں تقسیم کی جانی تھیں۔ کسانوں کی یک طرفہ اور ظالمانہ بے دخلیوں پر پابندی لگی۔ بیراجوں کے زیر کاشت آنے والی جو اراضی سرکاری افسروں میں تقسیم ہوئی تھی وہ 100 ایکڑ کو چھوڑ کر باقی واپس لے لی جانی تھی۔ ریٹائرڈ فوجیوں کے نام ایسی تمام اراضیات کے حقوق منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جنہیں دفاعی پٹی کے سرحدی رقبے کے عوض ملک کے محفوظ اندرونی علاقوں میں عطا کیا گیا۔ دفاعی افواج کے لئے مناسب اراضی مخصوص رہے گی۔

بلوچستان کے پٹ فیڈر کمانڈ ایریا کی سرکاری زمین کا بڑا حصہ قابل کاشت ہے۔وہاں آباد کسان اور دیگر افراد اس زمین کے دعویدار ہیں۔یہ زمین کسانوں اور بے زمین مقامی افراد کو دی جانے کی منظوری دی گئی۔اس قانون کا نام بلوچستان پٹ فیڈر زرعی اصلاحات ریگیولیشن 1972 رکھا گیا۔

اس کے مطابق یہ زمین کسانوں اور بے زمین مقامی لوگوں کو 32ایکڑ کے حساب سے دی جانی تھی۔  مشترکہ خاندان میں کسان اور ان کے ایک بالغ بیٹے کی صورت میں 64، ایکڑ سے زائد زمین نہیں دی جائے گی۔ خاندان میں کسان اور ان کے دو بالغ بیٹوں کی صورت میں 96ایکڑ سے زائد زمین نہیں دی جائے گی۔ یہ زمین پہلے سے آباد تصدیق شدہ بے زمین کسان کو دی جائے گی اس کے بعد تحصیل اور اس کے ضلع کے بے زمین کسان کا حق ہوگا۔اگر زمین حاصل کرنے کے لئے موجودہ زمین سے زیادہ درخواست گزار ہوں گے تو پھر اسی موضع کے لوگوں کے سامنے قرعہ اندازی کی جائے گی۔زمین کی مقررکردہ قیمت حکومت کے دئیے گئے شیڈول کے مطابق ادا کرنی ہوگی۔

واضح رہے کہ گڈو بیراج کے دائیں طرف دریا کے اوپر کی طرف سے نکلنے والی نہر کا نام ”ڈیزرٹ پٹ فیڈر“ ہے۔گڈو بیراج سے آخری ہیڈ ریگولیٹر تک پٹ فیڈر کی لمبائیR-D 558 (180 کلومیٹر)ہے۔ (ایک RD ایک ہزار فٹ کے فاصلے کو کہتے ہیں۔یوں  558  RD   کا فاصلہ180 کلومیٹر بنتا ہے)۔ ہیڈ ریگولیٹر اس مقام کو کہتے ہیں جہاں نہر پردرواز ے لگا کر پانی کو شاخوں میں چھوڑا جاتا ہے۔ پٹ فیڈر پر پہلا ہیڈ ریگولیٹر RD/418 پر واقع ”میر حسن ریگولیٹر“ہے جہاں سے تین شاخیں نصیرشاخ، جھڈیر شاخ اور ٹمپل شاخ نکلتی ہیں۔ ڈیرہ مرا دجمالی سے بائیں طرف بیدار ریگولیٹر ہے جس سے قیدی شاخ، محبت شاخ اور بالا شاخ (باری شاخ) کلتی ہیں۔ اس کے بعدRD/558 کے مقام پر روپا شاخ، عمرانی شاخ اور مگسی شاخ نکلتی ہیں۔

ادھر سے بلوچستان کا جنوبی علاقہ نہری زرعی علاقہ ہے۔ اسے پٹ فیڈر کا سرکاری نام حاصل ہے۔ مگر یہاں کسانوں کی جنگیں اس قدر زیادہ ہوئی ہیں اور اس قدر زیادہ خون بہا ہے کہ اسے عام لوگ ”رت فیڈر“ یعنی خون پہ پلنے والا علاقہ کہا جاتا ہے۔ یہ لڑائیاں ہر وقت وقفوں وقفوں سے جاری رہتی ہیں مگر سب سے بڑی تحریک بھٹو کے زمانے میں چلی۔ بھٹو نے ملک بھر میں زرعی اصلاحات کی تھیں۔

مارشل لاء ریگولیشن1972,115 کے تحت اور بلوچستان پٹ فیڈر میں زرعی اصلاحات کے لئے مارشل لاء ریگیولیشن 1972,117 اور ایکٹ1973 نافذ کیا گیا تھا۔ یہیں سے خون ریزی کو ایڑ لگ گئی۔ پٹ فیڈر کے جاگیرداروں نے علاقہ خالی کرنے کے لیے پٹ فیڈر کی زمینوں پر آباد مقامی ہاری خاندانوں کو بے دخل کرنا شروع کردیا۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف کاروائیاں شروع کردیں۔ کہیں تو قبائلی طو رپر کمزور برادریوں کو دھونس و دھمکی او رجھوٹے کیسوں میں پھنسا کر علاقہ خالی کرنے پر مجبور کیا جانے لگا۔کہیں ا ن کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں بھگانے کی کوشش ہوئی۔ اسی طرح گاؤں کے قریب کی نہر میں اپنے آدمیوں کے ذریعے شگاف ڈلوا کر مصنوعی سیلاب پیدا کیا گیا۔ اور وہاں کے ہاریوں کی زمینوں اور ان کے گھروں کو نہری پانی میں ڈبو کر انہیں علاقہ چھوڑنے پہ مجبور کیا گیا۔اور جب ایسے ہتھکنڈے ناکام ہوئے تو پھر قبائلی لشکر کشی کرکے، انہیں زمینوں سے بے دخل کیا جانے لگا۔مقصدیہ تھا کہ وہ زمینیں چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

ان کا مقصد یہ تھا کہ پٹ فیڈر کی وہ زمینیں جن پرکسانوں نے اپنی فصلیں اگائی ہوئی تھیں اور جو زرعی اصلاحات کے تحت کسانوں کے نام ہونی تھیں کسانوں سے چھین لی جائیں۔ اور اُس کے بعد جھوٹے ناموں سے خود کو یعنی اپنے خاندان کو ہی الاٹ کی جائیں۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری تھا اِن نہری زمینوں پہ قبضہ کسانوں کا نہ رہے۔

دوسری گھناؤنی حرکت جاگیرداروں نے یہ کی کہ جھٹ سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونا شروع کردیا۔ اور یہ پارٹی تو ایسی منحوس نکلی کہ اِن وحشی اور استحصالی جاگیروں کو اپنے ہاں فوراً بھرتی کر لیا۔ اور کئی جاگیردار تو پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار بنا دیے گئے۔ یوں اِن جاگیرداروں نے پارٹی کے اندر گھس کر اِن زرعی اصلاحات کو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کردیا۔

یہ جاگیردار پہلے ہی بہت طاقتور تھے، اب انہیں حکمران پیپلز پارٹی کا جیک بھی مل گیا۔ چنانچہ انہوں نے زور شور کے ساتھ سرکاری مشینری کے ذریعے ان زرعی اصلاحات کو ناکام بنانے کی کاروائیاں شروع کردیں۔ کسانوں کی بستیوں پہ حملے کیے، اُن پہ جھوٹے مقدمے بنائے، اور گرفتاریاں کروائیں تاکہ کسان وہاں سے نقل مکانی کرلیں۔

آئیے ایک کتاب سے ایک ٹکڑا پڑھتے ہیں:”شیر محمد چانڈیو کی درخواست پر لینڈ ریفارم انچارج جاوید اشرف اور اس کے ساتھی چنیسر خان بروہی اور جاوید اختر لیویز فورس کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ نہر کی شاخ پر ایک پل تھا۔ پل کے پار ایک چھوٹا گاؤں تھا۔  ڈپٹی کمشنرجاوید اشرف نے گاؤں کے لوگوں کو بلوایا۔ دہشت کی فضا تھی۔ لوگ آنے سے کترارہے تھے، کچھ لوگ آئے۔ڈی سی  نے شیر محمد کی طرف اشارہ کرکے پوچھا اسے پہچانتے ہو؟  لوگوں نے نظریں چرا کر اُسے پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ شیرمحمد چانڈیو اور اس کے ساتھی اس صورت حال سے بہت پریشان ہوئے۔شیر محمد چانڈیو نے جاوید اشرف ڈی سی کو کہا کہ یہ سب جاگیرداروں سے ڈرتے ہیں اس لیے یہاں کوئی حق سچ کی گواہی نہیں دے گا۔ ڈی سی نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ یہ زمین تمہاری ہے۔تم یہاں زرعی پیداوار کرتے تھے۔ لیکن مجھے قانونی طور پر دو گواہوں کی ضرورت ہے۔  چلو میں تم سے یہ رعایت کرتا ہوں کوئی ایک آدمی تو گواہی دے کہ تم یہاں رہتے تھے۔ اس پر شیرمحمد نے زور زور سے چلا کر لوگوں کو خدا کے واسطے دیے۔وہ کھڑے ہوئے لوگوں کا نام  لے لے کر ان کی منت سماجت کرتا رہا۔ لیکن لوگوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اس کے بعد شیر محمد نے کہا ڈی سی صاحب ان انسانوں میں سے کوئی میری گواہی دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔تب اس نے زور زور سے پکارنا شروع کردیا۔تھوڑی دیر بعد شیر محمد چانڈیو کا کتا پل کی دوسرے طرف سے دوڑ تا ہوا آیا اور شیر محمد چانڈیو کے پیروں میں لوٹنے لگا۔ ڈپٹی کمشنر جاوید اشرف نے کہا افسوس کی بات ہے کہ کوئی انسان گواہی دینے کے لیے  آگے نہیں بڑھا لیکن اس واقعہ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ تم واقعی یہاں رہتے تھے۔میں اس کتے کی گواہی قبول کرتا ہوں اور یہاں کے پلاٹ تمہارے خاندان کے نام کرتا ہوں۔ پھر جاوید اشرف نے لوگوں سے مخاطب ہو کے کہا کہ خدا سے ڈرو، خدا کے واسطے دینے پر بھی تم نے سچ نہیں بولا، آج جو کچھ شیر محمد کے ساتھ ہوا ہے وہ کل تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے“۔

پیپلز پارٹی میں چونکہ جاگیرداروں اور زمینداروں کی اکثریت تھی انہوں نے اپنی جاگیروں کو بچانے کے نہایت صفائی سے ایک چال چلی۔ اپنی زمینیں اپنے ملازمین، موروثی کسانوں، نوکر چاکروں کے نام الاٹ کرادیں۔ ان کی اکثریت کو اس بات کا پتہ بھی نہ چلا کہ وہ زمین کے مالک ہو گئے ہیں۔ وہ پہلے ہی کی طرح محنت کے بدلے آدھی بٹائی دیتے رہے۔ اصل حق دار اس اصلاحاتی مرحلے میں بھی زمینوں سے محروم رہ گئے۔ زمین انھی جاگیرداروں کے پاس ہی رہی۔

مگر ایک اور بڑی بدقسمتی آنے والی تھی۔ ابھی پٹ فیڈر کے کسانوں نے زرعی اصلاحات کے تحت ملنے والی زرعی زمینوں پر اپنا قبضہ مستحکم نہیں کیاتھا کہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگ گیا۔اور یہ مارشل لا ایک آفت تھی۔ جمہوریت کے لیے بھی،کسان تحریک کے لیے بھی۔ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اُن کسانوں کا کیا بنا ہوگا۔

پٹ فیڈر نہر کی جھٹ پٹ شاخ کا مشہور نام قیدی شاخ ہے۔ یہاں موضع جھڈیر کے گاؤں نور محمد جمالی (موجودہ نام میر گل موسیانی)ہے۔ اس میں آبا دمختلف قبائل کے لوگوں کے ساتھ گاؤں مراد علی زہری اور اردگر د کے مختلف گاؤں اور قبائلی برادریوں نے جمالی جاگیردار خاندان کو آدھی بٹائی دینے یا زمینوں کا قبضہ چھوڑنے کے بجائے اپنی بہتر قانونی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدوجہد کا عدالتی راستہ اختیار کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے وہاں کے کسانوں کو فائدہ ہونے لگا۔

پٹ فیڈر کے جاگیرداروں نے بھٹو حکومت کے خاتمے اور ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد زرعی زمینوں پر اپنا مالکانہ دعویٰ،اسسٹنٹ کمشنرٹمپل ڈیرہ کے پاس پرانے ریکارڈ کے مطابق دائر کرکے زرعی اصلاحات میں کسانوں کو حاصل شدہ زرعی زمینوں سے اپنے مالک ہونے کی وجہ سے آدھی بٹائی دلوانے کی درخواستیں دے دیں۔

اسسٹنٹ کمشنر جاگیرداروں کے حق میں فیصلہ کررہا تھا جس میں یہ حکم ہوتا کہ آدھی بٹائی جاگیردار کو ادا کیے بغیر کسان اپنی فصل نہیں اٹھا سکتا اور اکثر کسانوں کی فصلوں کے ڈیرے متنازعہ قرار دیکر لیویز کے پہرے میں دے دیے گئے۔

متاثر ہ کسان ڈپٹی کمشنر ٹمپل ڈیرہ کے دفتر میں اپیلیں کرتے رہے، ڈپٹی کمشنر کسانوں کی اپیلیں رد کردیتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے جاگیرداروں کے حق میں دیا گیا فیصلہ بحال ہوجاتا تھا۔  اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے کسان دشمن غیر قانونی فیصلے کے خلاف درخواست گزار بلوچستان ہائی کورٹ میں اپنی پٹیشن ڈپٹی کمشنر، اور جاگیردار کے خلاف دائر کرتے رہے جس کے نتیجے میں اُن کی کچھ کچھ شنوائی ہوتی رہی۔

ظفر اللہ جمالی نے گاؤں کے بڑے اور کسانوں کی نمائندگی کرنے والے سفید ریشوں کو پیش کش کی کہ وہ علاقے کے کسانوں کی سرپرستی اور نمائندگی چھوڑ دیں اور وہاں سے منتقل ہوجائیں۔  گاؤں میں ان کے خاندان کو جو زمینیں ملیں اس کے بدلے میں اُن کے خاندانوں کو کسی اور علاقے میں زمینیں دی جائیں گی اور اس کے علاوہ گھر وغیرہ بنانے کے لیے نقد رقم بھی دی جائے گی۔مگر راہنماؤں نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور فیصلہ کن انداز میں کہا کہ جب حکومت زرعی اصلاحات کا قانون ختم کرکے ہمارے نام الاٹ زمینوں کے بلاک منسوخ کر ے گی تو پھر جرگے میں فیصلہ کریں گے۔

سب سے پہلے جمالی فیوڈل کے لشکر نے ٹریکٹر ٹرالیوں، موٹر سائیکلوں، جیپوں اور 200 مسلح افراد کے ساتھ پر حملہ کیا اور کسانوں کی کٹی ہوئی فصل ٹریکٹر ٹرالیوں میں بھرنے لگے۔ گاؤں کے لوگ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے جس کی وجہ سے جمالیوں کا لشکر بغیر فصل اٹھائے چلا گیا۔

جمالی جاگیردار اپنے چند مسلح لوگوں کے ساتھ ایک پیرومرشد کو لے کر آگیا۔ پیرنے کسانوں کو سمجھایا کہ وہ  زمینوں کا قبضہ ختم کردیں کیوں کہ یہ زمینیں کئی نسلوں سے جمالی خاندان کی ہیں‘ خدا نے ان کو دی ہیں۔ ہمارے فیصلے عدالتوں اور قانون کے ذریعے نہیں ہوتے بلکہ بلوچی رسم و رواج کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہم لوگ خون کے فیصلے بھی آپس میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ تم لوگ زمینوں کے فیصلے عدالتوں سے کروا کر عدالتوں کو بلوچی رسم و رواج کے فیصلے سے زیادہ اہمیت دے رہے ہو۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ زمینیں  خاندانی طور پر جمالی قبیلے کی ہیں۔ ان کو سنبھالنے والے ہاری ہمیشہ جمالی جاگیردار کے بھائی رہے ہیں۔ آپ بھٹو کے کہنے پر جس کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور جو خود ابھی جیل میں ہے اپنے بھائیوں سے لڑ رہے ہو، ایک کاغذ کے ٹکڑے کی بنیاد پر اپنے بڑوں سے بغاوت کررہے ہو۔ یہی تمہارے اپنے لوگ ہیں ان کے ساتھ جرگے میں فیصلہ کرو۔ میں اور ظفر اللہ جمالی تمہارے پاس  میڑلے کر آئے ہیں۔

پیر صاحب کی تجویز کو بھی کسانوں نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ حکومت نے زمینیں ہمارے نام کی ہیں،بلوچستا ن ہائی کورٹ نے بھی ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اس لیے زمینیں واپس جمالیوں کو دینے کے لیے ہم جرگہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد کسانوں اور آنے والے جمالیوں کے مسلح لوگوں کے درمیان تکرار تیز ہوگئی، دونوں طرف سے اسلحہ نکل آیا۔ ظفر اللہ جمالی اور اس کا گروہ مع پیر صاحب کسانوں کے نرغے میں آگئے اور فائرنگ شروع کردی۔  فوراً ڈپٹی کمشنرٹمپل ڈیرہ ملک سرور ریزرو پولیس کا دستہ لے کر کسانوں کے گاؤں میں سفید جھنڈے اٹھا کر داخل ہوا۔ اس کے بعد پیر صاحب فائرنگ روکنے کے لیے نرغے سے باہر آیا۔ یوں ڈپٹی کمشنر ظفر اللہ جمالی اور اس کے مسلح گروہ کو کسانوں کے نرغے سے بحفاظت نکال کر لے گیا۔

اس واقعہ کے تقریباً15دن بعد20دسمبر1977ء کومختلف راستوں اور سمتوں سے  جمالی جاگیرداروں کے جمع کردہ تین چار سو افراد پر مشتمل لشکر نے گاؤں میر گل موسیانی کے گرد جمع ہوکر گاؤں کو گھیرے میں لے لیا۔اور مورچہ بندی کرکے فائرنگ شروع کردی۔ واضح رہے کہ 20اور21دسمبر1977ء کو محرم الحرام کی9اور10 تاریخ تھی۔گاؤں کے سربراہ میر گل موسیانی شہداد کوٹ اپنے رشتہ داروں سے ملنے گیا ہواتھا اس لئے وہ گاؤں سے باہر ہی رہا۔ گاؤں کے اور کئی لوگ اپنے دکانوں یا ملازمتوں کی وجہ سے ٹمپل ڈیرہ یا دیگر علاقوں میں ہونے کی وجہ سے گاؤں سے باہر ہی رہ گئے۔ جمالیوں کے لشکر کا مقابلہ صرف گاؤں کے اندر موجود لوگوں نے کیا۔ لوگوں نے اپنے گھروں کو مورچہ بنا لیا۔ گاؤں والے جس تالاب سے پینے کا پانی لیتے تھے وہ کچھ فاصلے پر گاؤں سے باہر تھااس لیے پینے کے پانی کا تالاب  جاگیرداروں کے فائرنگ کی زد میں آگیا۔ گاؤں کے اندر موجود پانی او رخوراک بچا بچا کر گاؤں والے مقابلہ کرتے رہے۔ جب کہ جاگیرداروں کے  کھانے کے لیے باقاعدہ دیگیں پک رہی تھیں۔ گاؤں کے اندر عورتیں اور بچے خوراک اور پانی کے لیے ترس رہے تھے۔

۔21دسمبر1977 ء کے دن بھی گاؤں میر گل موسیانی، جاگیرداروں کے لشکر کے نرغے میں رہا۔گاؤں سے باہر میر گل موسیانی صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سمیت پورے ملک، صوبے اور ضلع کی انتظامیہ کو ٹیلیگرام اور فون کے ذریعے گاؤں کے کسانوں پر جاگیرداروں کی مسلح لشکر کشی بند کرنے کے لئے درخواستیں اور اپیلیں کرتا رہا لیکن کوئی گاؤں والوں کو بچانے نہیں آیا۔

پھر21دسمبر کی شام میر گل موسیانی اور گاؤں سے باہر رہ جانے والے دوسرے لوگ  جاگیرداروں کے لشکر سے بچتے بچاتے چھپ چھپا کر اپنے گاؤں کے قریب کے دوسرے گاؤں میں چلے گئے اور دوسرے گاؤں کے کسانوں سے اپیلیں کیں،لوگوں کو بتایا کہ ہمارے گاؤں پر اگر جمالی جاگیرداروں کا قبضہ ہوگیا تو ہماری زمینیں اور عزتیں دونوں محفوظ نہیں رہیں گی، مگر اس کے بعد آپ لوگ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے، ہمارے بعد آپ کی بھی باری آسکتی ہے۔

رفتہ رفتہ اردگرد کے دوسرے گاؤں کے بہت سارے لوگ اپنا اسلحہ لے کر میدان میں آگئے۔ انھوں نے جاگیرداروں کے لشکر پر گاؤں کے باہر سے میدان میں مورچے بنا کر فائرنگ شروع کردی۔اب جب کہ جاگیرداروں کے لشکر پر میر گل موسیانی گاؤں کے اندر سے اور باہر کے مختلف علاقوں سے فائرنگ ہونے لگی تو جاگیرداروں کا لشکر سخت مصیبت میں پھنس گیا، میدانِ جنگ کا نقشہ تبدیل ہوگیا۔ گاؤں میر گل موسیانی کے کسان، ان کی عورتیں اور بچے پانی ا ور خوراک کے بغیر جاگیرداروں کے مسلح لشکر اورفائرنگ کے نرغے میں پھنس گئے تھے تو گاؤں سے باہر گاؤں والوں پر فائرنگ کرنے والا جاگیرداروں کا مسلح لشکر قرب و جوار کے دیگر گاؤں کے کسانوں کے فائرنگ کی زد میں آگیا۔یعنی گاؤں میر گل موسیانی کے کسانوں کو نرغے میں لینے والے جاگیرداروں کا لشکر اب دوسرے گاؤں کے کسانوں کے نرغے میں آگیا۔

۔21اور 22دسمبر1977ء کی درمیانی شب سارا علاقہ میدانِ جنگ بن گیا۔ جاگیرداروں کے لشکر کو رات کے اندھیرے میں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ مختلف سمتوں سے اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں۔

کسانوں کی جانب سے رحمت اللہ، عبدالحق،زرق جان اور عبدالکریم شہید ہوگئے۔

جاگیرداروں کے ہاتھوں  دس سے زائد کسان قتل ہوئے۔

اس جنگ کے دوران زخمی ہونے والوں میں بارہ سالہ بچہ خیر محمد اور جوانوں میں خدا بخش اور حمدان شامل تھے۔اس وقت لاپتہ ہونے والوں میں امیر حمزہ عبدالرزاق غلام رسول، اللہ ڈنو، اور دیگر تین افراد شامل تھے۔

بعدازاں خان آف قلات داؤد خان کی سربراہی میں منعقد ہونے والے جرگے میں فیوڈلوں نے اپنے لشکر کے صرف ایک زخمی کا اعلان کیا۔

 

نیمروز کسان

ستر ہی کی دہائی میں  افغانستان میں زرعی اصلاحات کے تحت44ہزار بے زمین بلو چ‘ زمین کے مالک بنادیا دیے گئے۔7فروری1979ء کے  ہفت روزہ”سوب“ کابل‘ میں اس کا ذکر اِن خوبصورت الفاظ میں کیا گیا ہے:

”نیمروز ایک زمانے میں بڑے شہری مراکز کا علاقہ ہوا کرتا تھا۔ اور یہ مدنیت عہدِ وسطیٰ سے قائم تھی۔ اس کی ساری آبادی زراعت سے وا بستہ رہی ہے۔ یہ علاقہ فیوڈلوں نے اپنے قبضے میں کررکھا تھا۔ نیمروز میں ایک ملین جریب زرعی زمین40ہزار خاندانوں کے ہاتھ لگ گئی۔ ایسے ایسے جاگیردار بھی تھے جن کے پاس اکیاون ہزار جریب زمین تھی اور ہزاروں بزگر اُن کی خدمت کیا کرتے تھے۔ پھر بھی ان جاگیرداروں سے اس زمین کی کاشت مکمل نہ ہوسکتی تھی اور ہر سال ہزاروں جریب کاشت سے رہ جاتے تھے۔

”علاقہ کے کسان اپنے بال بچوں کی کفالت کے لیے بیرونی ممالک جا کر محنت مزدوری پر مجبور تھے۔ چونکہ سرداری نظام کی مشینری پرانی ہوچکی ہے۔ یہ سردار لوگ بہت مقروض ہوتے گئے۔ پھر کسانوں کے بیرون ملک جانے سے بھی ان کی زرعی پیداوار کم ہوتی گئی۔

”افغان انقلابی  حکومت نے زمین کی جمہوری اصلاحات کیں اور بے زمین کسانوں میں زمین مفت بانٹ دی۔ اسی آٹھویں فرمان کے ذریعے نیمروز کے 44ہزار خاندان زمین کے مالک بن گئے“۔

******

بہتری کی راہیں

۔1۔بھرپور کاشت کاری کے لیے آبادی و آباد کاری بہت ضروری ہے۔ خانہ بدوش اور ”کاشروڑی“ لوگ کبھی بھی زراعت نہیں کرسکتے۔ اس لیے لوگوں کی مستقل آباد کاری، ان کے خیموں کو کمروں میں تبدیل کرنے اور الگ تھلگ رہنے والوں کو شہر اور قصبوں کی صورت میں اکٹھا اور مستقل آباد کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

۔2۔   انفراسٹرکچر مہیاکرنا۔ منڈی قائم کرنے اور ان منڈیوں کو کھیتوں کے ساتھ سڑکوں کے ذریعے پرو دیے بغیر زراعت کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ناترس منڈی کے اندر کاشتکارکاخیال رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ قلعہ نما پہاڑ تو ہمارے باپ دادا کی میراث ہیں۔ مگر منڈی تو شیطانی جگہ ہوتی ہے اور وہاں شیطان کے چیلوں کا قبضہ ہے۔ مال کی اچھائی اور کمتری کی بات ہے۔ ارزانی اور گرانی دیکھنی ہوتی ہے۔ موسم اوربے موسمی تفریقات ہیں اور مانگ اور رسد کا کالا قانون ہے۔  اس لیے منڈی میں ہمارے کسان کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔

۔3۔کاشتکاروں کو زراعت کے متعلق بنیادی معلومات مہیا کرنے ضروری ہیں۔یہ کہ وہ کون سی فصل کس وقت کس طرح کاشت کریں۔ کس کس وقت پانی لگائیں، کون سی کھاد اور اُسے کب استعمال کریں۔ کون سی فصل کی قیمت زیادہ ہے اور کہاں قیمت زیادہ ہے۔

۔4۔ اچھا بیج، کھاد، کرم کش ادویات کی سپلائی کے ایسے مراکز بنانے کی ضرورت ہے جو نزدیک بھی ہوں، سستے بھی اور بے رشوت و سفارش و جنجال بھی۔

۔5۔ فرٹیلائزر اور زرعی ادویات کی قیمت میں 50 فیصد کمی کرنا۔

۔6۔ پانی کا بندوبست کرنا۔ اس سلسلے میں کاریز، کنواں، ٹیوب ویل، چشمہ اور ندیوں کو ڈویلپ کرنا۔۔۔یوں آبی زراعت کو فروغ دینا۔

۔7۔دریاؤں اور ندیوں پر بند باندھنا، ٹیوب ویل کے علاقوں میں ڈیلے ایکشن ڈیم بنانا۔

۔8۔  ٹریکٹر، تھریشر، بلڈوزر یعنی مشینی کاشت کاری کو رواج دینا۔

۔9۔ زرعی اجناس کی قیمت بڑھانا۔

۔10۔ بڑے پیمانے کی زرعی اصلاحات کرنا۔ جس میں بڑے جاگیرداروں اور غیر حاضر زمینداروں کی زمین  ضبط کرنا اور کسانوں کے درمیان مفت تقسیم کرنا۔

۔11۔کاشتکاروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اصولوں پر  کسان کمیٹیاں بنانا۔

۔12۔معاشی اصولوں پر چلتے ہوئے زراعتی کوآپریٹو قائم کرنا۔ مشینی کاشت کی ترقی کے لیے تحقیقی مراکز کھولنا، موجود زرعی فارموں کی کارکردگی بہتر بنانا، اورکسانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے واقف کرنے کے لیے پروگرام بنانا۔

۔13۔ دیہی علاقوں میں زراعت کے ساتھ بندھی صنعتوں کا قیام اور لوگوں کو روزگار دینا۔ ڈبہ بندی پیکنگ کی صنعت کوصوبے میں ترقی دینا ہو گا۔ ضروری کولڈ سٹوریج اور مربہ،اچار کی سہولتیں موجود ہوں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے