میں اپنے گاؤں کے  نزدیکی ٹیوب ویل پر بزگر(کسان) تھا۔یہ ٹیوب ویل حاجی سلطان کا تھا۔ اس کے علاوہ حاجی سلطان کے بیس کے قریب اور بھی ٹیوب ویل تھے۔ وہ پورے علاقہ کا امیر ترین شخص تھا۔ بیس ٹیوب ویلوں کے علاوہ شہر میں حاجی صاحب کی بہت سی دکانیں اور مکان تھے جو کرایہ پر تھے۔

میں آٹھ دس سال سے حاجی سلطان کے ٹیوب ویل پر اُس سال سے بزگری کرہا ہوں جس وقت دو تین سال مسلسل بارشیں نہیں ہوئیں اور لمبی قحط سالی کی وجہ سے باپ دادا سے وراثت میں ملی ہوئی ساری بھیڑ بکریاں مر گئیں، کچھ بھی نہیں بچا۔

میرے پاس دو سے تین سو کے قریب بھیڑ بکریاں تھیں۔ مجھے سوائے خدا کے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ گھر میں پیسوں کی ریل پیل تھی۔ ہر سال میں سو کے قریب بھیڑ اور بکریاں شہر کے مختلف منڈیوں میں بیچتا تھا۔ لاکھوں روپے آتے تھے۔میں اپنی زندگی میں خوش تھا۔ہر سال ملا کو زکواہ کی مد میں اور سردار کو بجار کی مد میں پانچ سے چھ بکریاں دیتا تھا۔

ایک  دفعہ میں نے مکہ اور مدینہ کی زیارت بھی کی۔ دو بیٹوں کی شادیاں بھی کردی تھیں۔

جب دو تین سال بارش نہیں ہوئی تو خوشک سالی ہوئی۔ بارش ہماری زندگی ہے۔جب بارش نہیں ہوتی تو ہمارا سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہے تو ہم اپنے باپ دادا کی زمینوں کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ہم اپنی محبوبہ سے سالوں سال بچھڑ جاتے ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ہم عید پر اپنی محبوبہ کی دیدار نہیں کرسکتے۔

جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ہم تالاب پر پانی بھرنے کے وقت اپنی محبوبہ کی دیدار نہیں کرسکتے۔

جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ہم اپنی محبوبہ کے زلف و  رخسار پر شاعری نہیں کرسکتے۔

بارشیں ہوتی ہیں تو وہ ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں۔جب بارشیں نہیں ہوتیں تو ہم سے سب کچھ چھن جاتا ہے۔

جب پہلے سال بارشیں نہیں ہوئیں تو ملا روز گاؤں کی مسجد میں تقریر کرکے کہتا تھا یہ جو بارشیں نہیں ہورہی ہیں یہ سب ہمارے  عملوں کے وجہ سے خدا ہم سے ناراض ہے۔

ملا کی تقریر سن کر ہم ہر جمعہ کو ایک بکری خیرات کرتے تھے لیکن بارشیں نہیں ہوئیں۔ اسی طرح ہم سے اس بدبخت قحط نے سب کچھ چھین لیا ۔

پھر میں نے  حاجی سلطان کو منت سماجت کرکے اس کی کچھ شرائط بھی مان لیں۔ اس نے کہا کہ افغان مہاجرین ہماری ہر بات کو بڑے ادب سے مان لیتے ہیں اور ہمارے گھروں کے کام بھی کرتے ہیں مثلا ہمارے گھروں میں مٹی گارے کا کام ہو یا ہماری بھینسوں کے لیے بھوسے اور گھاس گھر تک بغیر معاوضہ کے لے آتے ہیں۔اور تم لوگ نہ بات مانتے ہو اور نہ ہمارے کام کرتے ہو“۔

تو میں نے حاجی صاحب کی تمام باتیں مان لیں۔

میں صج سویرے پہلے تو حاجی کے بیٹھک جاتا تھا۔ حاجی صاحب سے پوچھتاتھا کہ حاجی صاحب کوئی کام وغیرہ تو نہیں ہے گھر میں؟۔اگر کام وغیر ہوتا تھا تو میں کرتا تھا اگر نہیں تھا تو میں ٹیوب ویل پر جاتا اور اپنے کام میں لگ جاتاتھا۔یہ میرا روز کا معمول تھا۔اسی طرح آٹھ سال گزر گئے۔ ہر سال دو سے تین بوری گندم اور تیس سے چالیس ہزار روپے مجھے سالانہ ملتا تھا۔بڑی مشکل سے گزارا ہوجاتا تھا۔ کبھی کبھی میں قرضدار ہوجاتاتھا۔حاجی صاحب مجھے ہزار باتیں سناتا تھا۔میں سر جھکا کر سن لیتا تھا۔

آج صبح میں نے اٹھ کر نماز پڑھ لی تو بیوی نے کہا کہ  گھر میں آٹا نہیں ہے اور روزہ بھی قریب ہے۔میں پریشان ہو کر خاموش ہوا۔

جب میں معمول کے مطابق حاجی سلطان کے کی بیٹھک  پر گیا تو حاجی صاحب نے کہا روزہ آنے والا ہے گھر میں روٹی پکانے کے لیے لکڑی نہیں ہے تو استاد ٹریکٹر لے آئے گا،تم فلاں فلاں کے ساتھ چلو شام تک ایک ٹرالی لکڑی لانا۔میں نے جی کہہ کر کہا حاجی صاحب گھر میں آٹا نہیں ہے اگر ایک بوری گندم مجھے دے دو تو میرے بچے آپ کو دعا دیتے ہیں

میری بات سن کر حاجی آگ بگولا ہوا اور کہا تم بہت بڑے ٹھگ ہو جب بھی کام کہوں تو تم کوئی بہانہ بناتے ہو۔جاؤگم ہو جاو۔

میری آنکھوں میں آنسو بھر آے۔ میں خاموش ہوگیا اور ٹرالی میں بیٹھ کر لکڑی کاٹنے گیا جب میں شام کو گھر آیا تو بیوی نے کہا آٹا نہیں لے آئے؟میں نے اسے کہا کہ ایک بوری آٹا کے لیے حاجی سلطان نے مجھے ہزار گالیاں دیں۔ وہ ایک بوری بھی میں قرض میں لینے گیا تھا۔

میں مجبور ہوں وگرنہ تو میں حاجی سلطان کی ایک گالی بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔

میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔بیوی نے میرے آنسو دیکھ کر کہا آپ مت رو۔اس نے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر کہا آج یہ پرچی گاؤں کا ایک نوجوان سعداللہ لے آیا اور اس نے کہا ایک مشہور غیر سرکاری ادارہ نے آپ کے لیے دیا ہے اور یہ غیر سرکاری ادارہ آپ کو فلاں تاریخ کو 88 کلو آٹا، 9 کلو دال، اور 5 کلو گھی دے گا۔ اور سعد اللہ نے کہا کہ یہ  غیر ملکی ادارہ پورے علاقہ میں 500 سو سے زیادہ غریب لوگوں کو چار مہینے کے لیے یہ سارا راشن دے گا ۔

میں حیران ہوا۔ یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں ہم نہ جانتے ہیں نہ وہ لوگ ہمیں جانتے ہیں اور ہمیں چار مہینے بہت سارا راشن دیں گے۔ حاجی سلطان ایک تو ہمارے گاؤں کا آدمی ہے دوسرا میں اس کے ساتھ آٹھ سال سے مزدوری کرہا ہوں۔ ایک بوری نہیں دیتا وہ بھی قرض پر۔ایک یہ لوگ ہیں نہ جان نہ پہچان۔تھوڑی دیر میں سوچنے کے بعد نعیم کی کہی ہوئی بات میری سمجھ میں آئی کہ خدا  اپنے بندوں سے کیوں ناراض ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے