Home » پوھوزانت » بلوچستان میں محنت کشوں کی تحریک ۔۔۔ شاہ محمد مری

بلوچستان میں محنت کشوں کی تحریک ۔۔۔ شاہ محمد مری

                مزدور کی حالت انتہائی دشوار ہے۔وہ بغیر وقفے کے کام کرتے ہیں، غربت جھیلتے ہیں۔ وہ سماج کے اس طبقے سے تعلق رکھتے  ہیں جو کہ سب سے زیادہ محروم اور استحصال شدہ ہے۔

                مزدور دیکھتے ہیں کہ اُن کی محنت سے ساری دولت پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کی اس ساری محنت سے انہیں صرف اتنا ملتا ہے کہ وہ اُس شام اپنا پیٹ بھر سکیں اور اگلے دن محنت کرنے کی اپنی صلاحیت برقرار رکھ سکیں۔ مزدور اپنے لیے کام نہیں کرتے بلکہ ملوں، کانوں اور دکانوں کے مالکان کے لیے کام کرتے ہیں۔ اُن لوگوں کے لیے محنت کرتے ہیں جنہیں عام طور پر بورژوازی کہاجاتاہے۔

                سماج میں موجود سارے قوانین جائیداد والے طبقے کی خدمت کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اور سارا ملک بورژوازی کے مفادات میں چلایا جاتا ہے۔ ورکرز کا نہ تو قانون بنانے میں کوئی حصہ ہوتاہے،اور نہ ہی ملک چلانے میں۔ ان کا کام بس مشقت کرنا ہے، دوسروں کے لیے بغیر تھکے مشقت کرناہے، اور خاموشی اور تابعداری سے گرمی سردی اور بھوک برداشت کرنا ہے۔

                ریاست کا حکمران طبقہ ہر چیز کو سرمایہ داروں اور اشرافیہ کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ انہی پر عنایتیں برساتا ہے اورا نہیں ہی سارے حقوق عطا کرتا ہے۔ وہ ملک کا انتظام اُن کے حوالے کرتا ہے اور اُن مزدوروں کو فسادی قرار دیتا ہے جو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ وہ فیکٹری مالکان اور مزدور دونوں کی بہبود کو مساوی طور پر اپنے دل کے قریب رکھتا ہے، مگر کوئی اندھاہی یہ دیکھ نہ سکے گا کہ وہ خالی خولی الفاظ ہیں۔

                پیر اور پنڈت بھی غریبوں کی مدد کو نہیں جاتے۔ وہ محکوموں کو محض صبر اور انکساری کی تلقین کرتے ہیں، اپنے ستم گر سے محبت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔  مزدور، پنڈت اور حکمران سے کچھ کی توقع نہیں کرسکتے۔ یہ توقع کر نابھی وقت کا ضیاع ہے کہ سرمایہ دار اپنا ذہن بدل دیں گے اور ان کا استحصال کرنا بندکردیں گے۔سرمایہ دار قوت ِمحنت کے استحصال پہ زندہ ہیں اور کبھی بھی استحصال ترک نہیں کریں گے۔

                اسی لیے پر مزدور نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ زمین، اور فیکٹریاں، ورکشاپیں اور معدنی کانیں پرائیویٹ افراد کی ملکیت میں نہیں چاہتے۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کی ملکیت اور اُن کی انتظام کاری پورے سماج کی ہو۔

                باشعور مزدور جاننے لگتا ہے کہ جس وقت پیداوار کا کنٹرول پرائیوٹ مالکوں سے سماج کے ہاتھوں منتقل ہوجائے گا تبھی چیزیں تبدیل ہوجائیں گی۔ تب سماج ”ہر ایک کے لیے اچھی طرح زندگی گزارنے کو“ ممکن بنانے میں لگ جائے گا، تاکہ ہر شخص کے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود ہو، ایک بھرپور زندگی انجوائے کرنے کے لیے کافی آزاد ٹائم ہو، اور جو مسرت اور لطف میسر ہو اس سے وہ لطف اندوز ہو۔

                احتجاج اور مزاحمت کا انسانی شعور بڑھانے میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کے اندر مزدور ہڑتال بہرحال ایک انقلابی قدم ہوتا ہے۔ مزدور ہڑتال عمومی جمہوری سوچ کو بڑھا وا دیتی ہے اور طبقاتی اتحاد بڑھاتی ہے۔

                مشینوں کے درآنے سے،انسانی محنت کی پیداوار یت بہت بڑھ گئی۔زمین کی مشینی کاشت کے نئے طریقوں نے اس کی زرخیزی کو بڑھادیا،اگر تقسیم کا نظام ٹھیک رہے تو ہر ایک کے لیے ہر چیز کافی ہوگی۔وگر نہ تو امریکہ میں بھی دیکھیں تو وہاں بھی لوگ غربت میں رہتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہاں اناج،یاپوشاک ناکافی ہے۔وہاں تو اناج ریلوے سٹیشنوں پہ پڑا رہتاہے اور خریداروں کے انتظارمیں گل سڑ جاتا ہے اور بالاخر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مگر محنت کرنے والے عوام الناس بھوک سے مرجاتے ہیں۔ فیکٹری مالکان کے سٹور غیر فروخت شدہ مال سے پھٹ جاتے ہیں جبکہ اُن کے گیٹوں پرروزگار کی تلاش میں چھیتڑوں میں مجمعے کھڑے ہیں۔

                جب پیداوار اور تقسیم کا انتظام خود سماج کرے گا تو ”ہر ایک“کو کام کرنا ہوگا۔ مگر وہ محنت اس قدر مشقت بھری نہیں رہے گی جتنی کہ آج ہے۔ اس لیے کہ کام کرنے کے ناخوشگوار پہلوؤں کو ہلکا بنانے کے لیے سب کچھ کیا جائے گا اور محنت گھٹن والی،بدبودار، اور متعدی مرض پھیلانے والی فیکٹریوں میں نہیں کی جائے گی بلکہ روشن، کشادہ، خشک اور اچھی طرح ہوادارعمارتوں میں ہوگی۔ محنت اس قدر طویل نہیں ہوگی جتنی کہ آج ہے۔ ہر شخص کو کام کرنا ہوگا۔مگر یہ جبر کے تحت نہ ہوگا، تھکادینے والانہ ہوگا اور ذلیل کرنے والا نہ ہوگا۔

                تب سماج کمزوروں، بیماروں اور بوڑھوں کا خیال اپنے ذمے لے گا۔ مستقبل کا کوئی خوف نہ ہوگا، بے وارثی، بے علاجی میں مرجانے کا خوف نہ ہوگا، دوسروں کی محتاجی کا خوف نہ ہوگا۔لوگ جب بیمار پڑیں گے تو انہیں یہ خوف نہ ہوگا کہ خاندان محتاجی میں جائے گا، اس لیے کہ سماج،بحیثیت مجموعی بچوں کی پرورش، اُن کی نگہداشت اور انہیں مضبوط، صحت مند،عقلمند، کار آمد اور صاحبِ علم لوگ بنانے کا ذمہ دارہوگا۔ وہ اچھے سٹیزن ہوں گے۔

                 ورکرزجانتے ہیں کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ خود انہیں زمین پر ایک بہتر زندگانی کا حق جیتنا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اُن میں سے ہر شخص انفرادی طور پر بے طاقت اور بے دفاع ہے، مگر ایک بار جب ایک بڑی فوج کے اندر سب متحد ہوجائیں تو وہ ایک طاقت بن جاتے ہیں جس کے سامنے کوئی ریاست نہیں ٹھہر سکتی۔ مزدور جتنا زیادہ اتفاق میں اقدام کریں گے اتنی ہی طاقت سے وہ اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے، جتنا زیادہ شفاف وہ اپنی صفوں کی قدرکرنے آئیں گے، اور اپنے مقاصد کو شناخت کریں گے، اتنی قوت کی وہ نمائندگی کریں گے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مزدور وں کے اجتماعات میں ”دنیا بھر کے ورکرز ایک ہوجاؤ“اور ”ایک سب کے لیے اور سب ایک کے لیے“ کے الفاظ دہرائے جاتے ہیں۔ ورکرزکو ایک طویل اور مصمم جدوجہد کرنی ہوگی۔ آگے کے لیے ہر قدم کے لیے لڑنا ہوگا۔

                پہلے پہل ورکرزاُن مطالبات کے لیے جدوجہدکرتے ہیں جو اُن کی ذات سے متعلق ہوں، جو اُن کے قریب ترین ہوں۔ تنخواہوں میں اضافے کے لیے،مختصر کام کے دن کے لیے، ہڑتال  کے حق کے لیے، اپنے معاملات پر بحث کرنے کے لیے اجتماعات  کے لیے اور یونین سازی کے لیے۔

                مزدروں کے مسائل پہ اکٹھے ہونے والے لوگ سیاست پر بھی بات کرتے ہیں۔ انہیں اپنی طبقاتی قوت پہ بے انتہا بھروسہ تھا۔ اور وہ اپنا لال جھنڈا لے کر اقتدار والوں کو للکارتے ہیں۔

          مالکوں اور مزدوروں کے بیچ ساری مخالفتوں میں حکومت مالکوں کی طرفدار ی کرتی ہے۔ ورکرز جانتے ہیں کہ مالکان سے جدوجہد کے واسطے تنظیم رکھنے کے لیے انہیں ہڑتال کی آزادی چاہیے، میٹنگیں کرنے اور یونین بنانے کی آزادی، تقریر کی آزادی اور پریس کی آزادی چاہیے۔ مگر وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بڑے سرکاری بیوروکریٹ ہمیشہ امیروں کی طرفداری کرتے ہیں، اور ہمیشہ مزدوروں کے خلاف قوانین بناتے ہیں۔وہ ہمہ وقت تازہ ٹیکس  لگاتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مزدور، اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے قوانین بنانے میں اور سماج کو چلانے میں اپنی آوازنہ رکھیں۔ چنانچہ مزدور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کو اُن قوانین کے مطابق چلایا جائے جو پارلیمنٹ کے منظور کردہ ہوں۔

                مزدور عام رائے دہی کا مطالبہ کرتے ہیں جو انہیں اپنے نمائندے پارلیمنٹ بھیجنے کی اجازت دے گی۔ دوسرے لفظوں میں مزدور سیاسی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سیاسی آزادی کے بغیراور ملک کو چلانے میں شراکت داری کے بغیر مزدور کبھی بھی سماج کو ایک سوشلسٹ نظام کے تحت چلانے کے اپنے عزیز مقصد کو حاصل کرنے کے قابل نہ ہوسکیں گے۔ لہذا مزدور سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

                یہ سخت ضروری ہے کہ ورکرز کے کاز کی جدوجہد میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ چلیں تاکہ جنگجو ورکرز کی فوج کی صفوں کی تعداد بڑھ جائے اور فتح حاصل کرنے کے لیے مزدوروں کی صفوں کو مضبوط کیا جائے۔

                بلوچستان میں ٹریڈ یونین تاریخ بہت دھندلی ہے۔ اس شعبے میں کوئی ریسرچ وغیرہ نہ ہوئی۔ ہم ایک صدی قبل ایک عدالتی فیصلہ یہاں نقل کر کے بلوچستان میں ٹریڈ یونین کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

تاریخ ہے  19-10-1927

                قاضی داد محمد اور ایک عدالتی فیصلہ

                حکم آفیسر/فیصلہ:سرکار بذریعہ سپرنٹنڈنٹ جیل ضلع سبی

                مورخہ1-10-27کو اس نے مطالبات کی عدم منظوری کی بناء پر جیل میں بھوک ہڑتال کردی۔(مطالبات یہ تھے):

۔-1    میں سیاسی قیدی ہوں۔ توہینِ عدالت کے جرم میں سزا یافتہ ہوں۔ مجھے جیل میں اس

                کی مطابقت میں  اے، بی یا،سی کلاس میں رکھا جائے۔

۔-2            جیل وارڈنوں میں مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے۔

۔-3            خشک سالی کی وجہ سے تلی اور مل کے کاشتکار بہت تنگدستی کا شکار ہیں۔ ان کی امداد کی

                جائے۔

۔-4            بمثلِ نصیر آباد، یہاں سیوی میں بھی ریلیف ایکٹ جاری کیا جائے اور

                کاشتکاروں کی مدد کی جائے۔

۔-5            ملکی کلرکوں سے امتحان سے متعلق تمام پابندیاں ہٹادی جائیں اور ان سے دوبارہ

                امتحان نہ لیا جائے۔

۔-6            کالے قوانین کو ختم کیا جائے۔بیگار ختم کی جائے، تعلیم عام کی جائے، روزگار کے

                مواقع فراہم کیے جائیں اور بلوچستان میں اصلاحات نافذ کرکے عوام کو جوابدہ حکومت

                قائم کی جائے۔

                سات تاریخ تک قاضی صاحب کی بھوک ہڑتال جاری رہی۔۔۔۔سرکار نے اُسے بھوک ہڑتال کے جرم میں چھ ماہ کی جیل دے دی۔(1)

                قاضی صاحب بلوچستان کی ہماری مزدور تحریک کا گمنام سپاہی ہے۔اس نے ترقی پسند اور سامراج دشمن سیاست1929 میں شروع کی اور حکیم پنوں خان کے ساتھ کسان تحریک کا روح رواں بنا۔ اس نے کوئٹہ اور مچھ میں کوئلہ کانوں اور ریلوے مزدوروں کومنظم کرکے ان کی سیاسی، معاشی اور طبقاتی حقوق کے حصول میں اپنی جدوجہد مرکوز کی۔

                مگر، بلوچستان میں  ٹریڈ یونین تحریک کا بانی تو یوسف عزیزمگسی تھا، نظریاتی طور پر بھی اور تنظیمی طور پر۔ اس نے بیسویں صدی کے اوائل میں لکھاتھا:” ………… (میں) کوشش میں ہوں کہ کوئٹہ، جھل، سبی،نوشکی اور مستنگ میں کسانوں اور مزدوروں کی ایک یونین بن جائے جس کے مقاصد سرمایہ داروں سے اپنے حقوق حاصل کرنا اور مزدور کے لیے، جن میں ریلوے کی تعمیر کے ہر قسم کے مزدور ہوں، اجرت کے نرخ اور اوقاتِ کار کو مناسب سطح پر لانا ہو“۔(2)

      محمد امین کھوسہ کے نام ایک اور خط میں مگسی صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ ………… ”میرے مرنے کے بعد آپ بلوچستان میں مزدوروں کی یونین بنائیں۔ ریلوے قلیوں، دکانوں اور ہوٹلوں کے نوکروں، کوئلہ کانوں اور عمارتوں کے مزدوروں اور کھیتوں کو آباد کرنے والے کسانوں کی انجمنیں بنائیں ……“۔

                مگرمگسی صاحب کو زندگی نے زیادہ مہلت نہ دی۔ وہ اپنے ان ارمانوں کے اظہار کے  چند برس بعد ہی کوئٹہ کے زلزلے میں انتقال کر گیا۔

        مگسی صاحب کے انتقال کے ایک دہائی برس کے اندر اندر کوئٹہ میں دو ہزار مزدوروں کی ہڑتال، کان مہتر زئی اور نصیر آباد میں کسانوں کا ایجی ٹیشن، مستنگ سٹیشن کے قلیوں اور مچھ کی کوئلہ کانوں کی متعدد ہڑتالیں اورنوشکی کے غریب باشندوں کا سرکاری ٹیکس کے خلاف تاریخی احتجاج …………، سرگرمیاں ہی سرگرمیاں ہوتی رہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک بڑھتی گئی۔

                مگسی صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کے محض ایک دہائی بعد1941 میں یہاں ”بلوچستان مزدور پارٹی“ قائم ہوتی ہے۔ پارٹی نے 1941 میں مزدوروں کا عالمی دن یومِ مئی کوئٹہ کے میکموہن پارک میں منایا۔ اُس جلسے میں ایک ہزار سے زائد کی حاضری تھی۔ خطاب کرنے والوں میں قاضی داد محمد، عبدالکریم شورش، محمد شفیع اسدی، سردار گربچن سنگھ، جیت سنگھ (کوئلہ مزدوروں کے مسائل)، محمد حسین عنقا، شمیم،اور غوث بخش بزنجو شامل تھے۔

                اسی طرح قاضی داد محمد کی سوانح میں ہمیں 1948 میں بلوچستان لیبر فیڈریشن نام کی تنظیم کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ اس تنظیم کے بانیوں میں سے تھا۔ جبکہ اسی نام سے ایک متوازی تنظیم تھی جو مسلم لیگ کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔

                تاریخ دلچسپیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور اس میں بہت دلچسپ مظاہر موجود ہیں۔ 1948 میں بلوچستان لیبر فیڈریشن (جو کہ مسلم لیگ کا ایک ونگ ہوا کرتی تھی)نے سبی میلہ کے موقع پر ایک جلسہِ عام کا بندوبست کیا تھا۔ اس جلسے سے ایک دن قبل قاضی داد محمد نے بلوچستان لیبر فیڈریشن کے صدر سید میر احمد شاہ آغا سے مطالبہ کیا کہ مقررین میں اُس کا نام بھی شامل کیا جائے۔ آغا نے نظریات کے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے انکار کر دیا۔ قاضی نے جلسہ کو درہم برہم کرنے کی دھمکی دی۔ رات کو جلسہ والوں نے اُس کے مکان کے دروازے پر تالا لگا دیا۔قاضی صاحب کوگھر کے اندر بند کر دیا گیااور جلسے کے خاتمے پر ہی جا کراُسے رہائی نصیب ہوئی۔ چنانچہ آدھی رات سے صبح تک وہ سبی کی سڑکوں پر بلوچستان لیبر فیڈریشن کے خلاف نعرے  لگاتا رہا۔ اور بعد میں ریذیڈنسی کے دروازے پر پہنچا جہاں پاکستان کا گورنر جنرل قائد اعظم قیام پذیر تھا۔ صبح سویرے، وہ قائد اعظم سے ملاقات کرنے پر بضد تھا اور زور زور سے چلا رہا تھا۔ اس کے گیٹ پر موجود پولیس آفیسر نے قاضی صاحب کو پاگلوں کے قانون کے تحت گرفتار کر لیا۔(3)

                قاضی داد محمد مزدور تحریک کا روح رواں تھا۔ اس نے ”بلوچستان مزدور یونین“ کے نام سے ایک انجمن کی داغ بیل ڈالی۔سبی و کوئٹہ میں لیبر یونین کا دفتر قائم کر کے اس پر مزدوروں کا سرخ پرچم لہرایا۔

                اُسی زمانے میں ریلوے کے مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے پہیہ جام ہڑتال کی تھی۔ قاضی صاحب نے سبی ریلوے مزدوروں کے ساتھ مل کر اُن کی رہبری کر کے ہڑتال کو کامیاب بنایا۔ قاضی صاحب ریلوے مزدور وں کے رہنماؤں چراغ دین، بشیر احمد، بلدیو سنگھ اور موہن لال کے ساتھ ریلوے پٹڑی پر لیٹ گئے ۔ وہ مزدوروں کا انقلابی سرخ جھنڈا جس پر درانتی اور ہتھوڑے کا نشان تھا، اپنے سینوں پر کھڑا کر کے ہوا میں لہراتے رہے ۔ دیگر تمام ریلوے کے ہڑتالی مزدور گاڑی کے پہیوں کے ساتھ چمٹ گئے۔ہڑتال مقررہ وقت تک جاری رہی۔ انگریز سامراج نے ان کو ہر طرح سے خوفزدہ کرنے اور ہڑتال  سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن کوئی حربہ کار گر نہ ہوا۔ اس دوران گاڑیوں کی آمد و رفت معطل ہو جانے کی وجہ سے کافی لوگ ریلوے سٹیشن سبی میں موجود تھے۔ اور یہ موقع تھا بھی سبی کے مشہورِ زمانہ ”سالانہ جلسہ“کا۔ ”میں نے بہ چشم خود دیکھا کہ سبی سٹیشن پر پلیٹ فارم نمبر 1 اور نمبر 2 کے درمیان جو پُل بنا ہوا ہے اُس پل پر شہزادہ آغا عبدالکریم خان احمد زئی، نواب اسد اللہ خان رئیسانی اور نواب بہرام خان لہڑی (وزیر عدلیہ ریاست قلات) موجود تھے۔ اور پلیٹ فارم پر اے آر ڈیوی(APA سبی) اور سردار مراد خان سارنگ بھی موجود تھے۔ اور اُن  کے ساتھ سید شہین خان شاہ شاہرگ والے بھی موجود تھے۔ لیکن علاقہ مجسٹریٹ خان عبداللہ خان جو اُن دنوں ایکسٹرا  اسسٹنٹ کمشنر سبی تھا، موجود نہ تھا۔ اس لئے پولیس مداخلت نہ کر سکی۔ علاقہ مجسٹریٹ اُس وقت آیا جب ہڑتال کا مقررہ وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس کامیاب ہڑتال کے خاتمے پر اِن ہڑتالی لیڈروں کو گرفتار کر کے سبی جیل میں رکھا گیا۔ لیکن ریلوے مزدوروں اور دیگر عوام نے ہڑتال کر کے پورا شہر بند کر دیا۔ پھر دیہات کے لوگ بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ اور سب لوگ ڈسٹرکٹ جیل سبی کے سامنے جمع ہو گئے۔وہ نعرے لگا رہے تھے:”دنیا کے مزدورو! ایک ہو جاؤ۔ نوکر شاہی کو جھکا دو۔انقلاب زندہ باد۔

                انتظامیہ نے مجبور ہو کر تیسرے دن مزدور راہنماؤں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دیا۔

                 اُس زمانے میں شہری سیاست کو بہت کم لوگ جانتے تھے اور نہ کوئی اپنے حقوق کو جانتا تھا۔ لیکن قاضی صاحب نے ناقابلِ برداشت قربانیاں دے کر اس خطہ کے لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور دیا۔ سبی میں اُس زمانے میں تین سیاسی پارٹیاں کام کر رہی تھیں۔

                 اول: مزدور پارٹی (جس کی قیادت قاضی داد محمد کر رہا تھا۔)

                دوئم: خاکسار پارٹی (جس کی قیادت شیخ عبدالعزیز گھڑی ساز کر رہا تھا) اور

                سوئم: مسلم لیگ (جس کی قیادت قاضی غلام رسول علی زئی اور حکیم پنہوں خان کر رہے تھے)“۔(4)

                ایک بار سبی کے ریلوے مزدوروں کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو رہی تھی۔ اس پر قاضی صاحب جا کر ریلوے لائن پر سو گیا۔ بزنجو آیا مزدوروں اور قاضی صاحب کی نمائندگی کر کے حکومت سے مذاکرات کرا کر ادائیگی کروائی اور قاضی صاحب رہا ہو گیا۔(5)

                ”بزنجو صاحب نے کہا کہ مزدوروں کی طرف سے ریلوے ہڑتال قاضی صاحب کی راہنمائی میں ہوئی تھی اور وہ گرفتار ہوئے تھے۔ اس سلسلے کے احتجاج میں عوام کے ساتھ خود بزنجو صاحب بھی شامل ہوئے تھے“۔(6)

۔          1950 کے اوائل میں خاکروبوں کی یونین نے اپنے مطالبات کے حق میں تین دن تک کوئٹہ میں تحریک جاری رکھی۔

                بلوچستان کی ٹریڈیونین تحریک  ملکی سیاست کی مطابقت میں اتار چڑھاؤ کرتی رہی۔ ون یونٹ، مارشل لا اس تحریک کو اپنا نشانہ بناتی رہیں۔ پھر بلوچستان صوبہ بنا۔ مگر ریلوے، واپڈا اور مرک مارکر کمپنی میں ہمیشہ ٹریڈیونین سرگرمیاں رہیں۔

         ریلوے        ریلوے ورکرز یونین آزادی سے قبل مختلف شکلوں اور ناموں سے چلتی چلتی 1948 میں پاکستان کے اندر قائم ہوئی۔یہ شاید قدیم ترین یونین بھی ہے  اور وسیع ترین بھی۔مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض اور سی آر اسلم اس میں کام کرتے تھے۔

        بلوچستان بھی ہمیشہ اس کا سرگرم یونٹ رہا۔بالخصوص  1970 کے بعد یہاں کے دانشوروں، اور سیاسی کارکنوں  نے شعوری کام کیا اور یہاں ریلوے  ورکرز یونین اگلے تیس سال تک ایک قوت کے بطور موجود رہی۔ ڈاکٹر خدائیداد، شاہ محمد مری،محمد امین اور جاوید اختر سرگرم سیاسی ورکرز کے بطوراس کی سرگرمیوں میں موجود رہے۔ یہ اُس دور میں ایک زبردست منظم  اور باشعور تنظیم بنی۔یہ تنظیم بلوچستان میں وہ دوست چلاتے تھے جو پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن سے وابستہ تھے۔جبکہ ریلوے کی یہ یونین مرزا ابراہیم کی تنظیم سے وابستہ تھی۔ یوں ہماری بلوچستان کی ریلوے ورکرز یونین کنیز فاطمہ اور مرزا ابراہیم کی فیڈریشنوں کے بیچ زبردست دوستیوں کا سبب بنی رہی حالانکہ یہ دونوں پاکستان سطح پر ایک دوسرے کی سخت دشمن تنظیمیں تھیں۔

         واپڈا        واپڈا کے اندر بھی بڑی یونین رہی۔اور اگر اس کی تاریخ دیکھیں تو ہائیڈرو الیکٹرک سنٹرل لیبر یونین 1935 میں بنی تھی۔ بدقسمتی سے یہ یونین سرکار سے کبھی دوری کے فاصلے پر نہ رہی۔

       پوسٹل مزدوروں کی یونین بھی بلوچستان میں (زیادہ تر کوئٹہ میں)اپنا وجود  رکھتی رہی۔

          اس کے علاوہ کو ئٹہ میں سرکاری محکموں  کے نچلے گریڈ کے ملازموں  کی ایک ڈھیلی تنظیم، بلوچستان لیبر فیڈریشن موجود رہی۔جو اپنے اجزائے ترکیبی کے سبب زیادہ تر بورژوا سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رہی۔

                 بلوچستان میں مزدوروں کی اکاد کاسرگرمیاں رہیں۔کوئی بہت بڑی تحریک نہ ہونے کی ٹھوس وجوہات موجود رہیں۔1971 میں یوم مئی کے جلوس میں خاکروبوں کی یونین کے علاوہPWD،ریلوے،تھرمل پاور ہاؤس اور مختلف صنعتی و غیر صنعتی ادارو ں کے مزدوروں نے پرجوش طور پر حصہ لیا۔ یہیں پر ایک متحدہ فیڈریشن کے قیام کی تجویز پہ کام کا آغاز ہوا اور جون1971 میں بلوچستان نیشنل ورکرز فیڈریشن قائم ہوئی۔

۔        1990 کی دہائی کے آخری برسوں  سے ملک کے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی ٹریڈیونین ازم کے اندر زبردست شکست و ریخت دیکھنے میں آئی۔ انتظامیہ نے وہاں زبردست دست اندازی کی، اپنے لوگ  لیڈر شپ میں پیدا کیے، کرپشن کو بہت عام کردیا اور ہر لحاظ سے ٹریڈ یونین کو پنپنے نہ دیا۔آج دن تک ٹریڈیونین سنبھل نہ سکی۔

                استحصال سے نجات کے لیے بلوچستان میں اب بھی کان کنوں اور ماہی گیروں کی کبھی کبھار تنظیمیں بنتی رہتی ہیں مگر یہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے کہ لیڈر شپ قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ نیز سیٹھوں اور دلالوں کے ایجنٹوں کی طرف سے بھی سازشیں ہوتی رہتی ہیں کہ ایسی تنظیم کاری نہ ہو پائے۔

                سیاسی پارٹیاں تو ”اور“ کاموں سے فارغ نہیں ہیں، وہ ٹریڈ یونین کیا بنائیں گی؟۔پاکستان کی ٹریڈ یونین تحریک بھی ”لیڈر زدہ“ حالت سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور اس طرح بلوچستان کی دو اہم صنعتیں (معدنیات اور ماہی گیری) بغیر ٹریڈ یونین کے ہیں۔ایگریکلچر کو ابھی تک انڈسٹری کا درجہ حاصل ہی نہیں ہے۔اور نہ ہی بلوچستان میں صنعتی زراعت شروع ہوئی ہے۔

                داؤ پیچ کی رنگا رنگی سے قطعِ نظر ٹریڈ یونین عمومی جمہوری انقلابی تحریک کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے۔ یہ عوامی جمہوری جدوجہد میں قدم قدم اور مورچہ مورچہ شامل رہتی ہے۔ عارضی پیشہ وارانہ  مطالبات،اور مہنگائی ایسی حقیقتیں ہیں جو سماجی انقلاب کے اس درخت کو کبھی سوکھنے نہیں دیتیں۔

                بلوچستان کی صورت حال اس لیے بھی ٹریڈ یونین کے لیے موزوں نہیں رہی کہ یہاں حکومت پاکستان اور بلوچوں کے بیچ مسلح لڑائی کی حد تک ایک تضاد موجودرہا ہے۔چونکہ مذکورہ محکموں اور اداروں میں مزدور بلوچ نہیں ہیں اس لیے بلوچ قومی تحریک نے اُن سے واسطہ نہ رکھا  اور اپنی تحریک کو محنت کشوں سے عملی اور فکری دونوں صورتوں میں دور رکھا۔

                دوسری مصیبت یہ تھی کہ مرکزی حکومت نے کوئی ایسی تحریک وتنظیم منظم ہونے ہی نہ دی جو بلوچستان کی زمینی حقائق میں کبھی بھی کوئی دلچسپی رکھ سکتی ہو۔ پاکٹ سیاسی پارٹیوں سے لے کر پاکٹ مزدور یونینوں تک کی باتیں ذرا ماضی ہیں۔ اب تو اس نے ٹریڈ یونین کے اندر اس قدر سنگساری کردی کہ ”تنظیم“ کا تصور ہی فوت ہوگیا۔ یعنی  بلوچستان کا مزدور ٹریڈ یونین میں منظم نہیں ہے۔ لیفٹ رائٹ سب کا غذی تنظیمیں بنائے بیٹھے ہیں جو وقت ِضرورت لیڈروں کے کام آتی رہتی ہے۔

                اور جب مزدور یونین وجود نہ رکھتی ہو تو مزدور کم تنخوا ہی سے لے کر پست معیارِ زندگی کی نچلی تہہ پہ پڑا ہوگا۔ مزدور کی ملازمت سے فراغت کے لیے سرکار یا مالک کو کوئی شوکاز دینے کی تکلیف نہیں کرنی ہوتی ہے، یونین جو نہیں ہے۔ اور اگر مزدور پرائیویٹ طور پر عدالت کا رجوع کر لے تو فوراً اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اگر جج رشوت نہ بھی لے تو قانونی راستہ اس قدر طویل، مہنگا اور دشوار ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

                اسی طرح چُھٹی کے حقوق صفر۔ جب چاہے چھانٹیاں کرلیں، پتہ نہیں گریجوئٹی، میڈیکل الاؤنس،کنونس الاؤنس نام کے الفاظ عملی طور پر کہیں موجود ہیں بھی کہ نہیں۔ اُس کے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی سکول موجود نہیں۔ پنشن، رہائشی سہولت پیسہ دو حاصل کرو۔۔اور جب پیسہ ہضم تو، کھیل ختم۔

                سب سے بڑا مسئلہ تو مرکزی حکومت کے اداروں (ریلوے، پی آئی اے،کیسکو، پی ڈبلیو ڈی، اور پوسٹ آفس) کے مزدوروں کا ہے۔ سب باہرسے بھرتی ہوکر آتے ہیں۔ ہماری اپنی صوبائی حکومت کے الیکشن تک باہر ہوتے ہیں تو مزدور کیا خاک لوکل ہوگا؟۔ اس کے لیے سردار اور ملا اور نودولتی لوگوں کی اسمبلی کیابات کرے گی؟۔ سو، آسرا اُس رب کا جس نے نیلا آسمان بغیر ستون کے کھڑا کر رکھا ہے۔

***

                اگلا تماشا یہ ہوا کہ بلوچستان میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اور اُس پہ طرہ یہ کہ پابندی سرکار نے نہیں بلکہ بلوچستان ہائی کورٹ نے لگائی، آزاد عدلیہ نے۔

                مگر پابندیاں تو عجب انداز سے تحریکوں کو مضبوط کرتی ہیں۔ چنانچہ بلوچستان کے مزدوروں نے ”بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس“کے نام سے ایک متحدہ محاذ بنا ڈالا۔

                اس الائنس میں پچاس سے زائد مختلف محکموں کے ملازمین کی ایسوسی ایشنیں،یونینیں اور فیڈریشنیں شامل ہیں۔ اِن میں فشریز، لائیوسٹاک، منرل ڈیپارٹمنٹ، ایجوکیشن، ہیلتھ، ایگریکلچر، فارسٹ، لیبر اور دیگر شعبوں کے لوگ شامل ہیں۔ یہ تنظیمیں دو لاکھ ساٹھ ہزار ملازمین اور مزدوروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔

                اس الائنس کی طرف سے 2021میں ایک زبردست، پرجوش اور طویل احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ یہ دھرنا سرکاری سیکرٹریٹ کے قریب قائم کردہ نام نہاد ریڈ زون پہ لگایا گیا۔

                یہ پنڈال مارکیٹ کے مارے بلوچستان کے ہاکی چوک کوئٹہ میں سجا رہا۔ یہ دھرنا دراصل صوبے کے کرپٹ اشرافیہ حکمرانوں اور اْن کی مزدور کْش پالیسیوں کے خلاف تھا۔ مزدوروں کا یہ میلہ اْس کے باوجود سجا کہ بلوچستان میں ٹریڈ یونینوں پہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ پبلک سیکٹر میں روزگار کے دروازے بند ہوچکے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ اس سب نے مل کر غربت کو حدو حساب سے زیادہ بڑھا دیا۔

                مزدوردن رات وہاں موجود رہے۔ تقریر یں کرتے رہے، انقلابی ترانے بجاتے رہے، اورقراردادیں منظور کرتے رہے۔ اظہار یک جہتی کے لیے آنے والی پارٹیوں اور دانشور تنظیموں کے ناموں کے اعلان پہ تالیاں بجا کر انہیں خوش آمدید کہتے رہے۔

                سنجیدہ مطالبات لیے ہوئے اس ہزاروں کے مجمعے میں نوشکی کا رقص ہوتا رہا، ترنم کے ساتھ پشتو ترانے گائے جاتے رہے اور اپنی مادری زبانوں اور اردو میں تقاریر ہوتی رہیں۔ یعنی جس طرح عوامی اجتماعات ہوتے ہیں بالکل اسی طرح یہ 12 روزہ عوامی اکٹھ منعقد ہوا۔ یکسانیت کا شائبہ تک نہ تھا۔ صوبائی حکومت کے خلاف مزاح میں لپٹی ایسی باتیں ہوتی رہیں کہ میلہ اور مقبول دھرنے میں فرق مٹ گیا۔

                ہمارے دانشور اور سیاستدان آئی ایم ایف کا بہت ذکر کرتے رہتے ہیں۔ مگر یا تو اْن کی زبان میں وہ تاثیر نہیں، یا وہ بہت بے محابا انداز میں بولتے رہتے ہیں۔ اسی لیے لوگ آئی ایم ایف کو بس ایک عام بات سمجھتے ہیں۔ مگر کوئٹہ میں مزدور الائنس کے اس دھرنے کی ساری توجہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی مخالفت رہی۔ نفرت سے بھری مخالفت۔ مقررین بار بار دوہراتے رہے کہ یہ بات پاکستانی سرکار کی نہیں ہے کہ پنشن ایک بوجھ ہے، یہ بات آئی ایم ایف کی ہے۔ اسی طرح سالانہ انکریمنٹ روکنے کی بات بھی آئی ایم ایف کی ہے۔ اور یہ بھی آئی ایم ایف کا فقرہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو ساٹھ سے کم کر کے 55سال تک لایا جائے۔ پرائیویٹائزیشن بھی آئی ایم ایف کی پڑھائی پٹی ہے اور ڈاؤن سائزنگ بھی۔

                یہ دھرنا سترہ نکاتی مطالبات پہ مشتمل تھا۔ اِن مطالبات میں 25فیصد الاؤنس دینے، ملازمتوں میں فوت اور ریٹائرڈ ملازمین کے لواحقین کا کوٹہ بحال کرنے، ہیلتھ انشورنس کا رڈ اجرا کرنے، 62 ٹریڈ یونینز پر عائد پابندی ختم کرنے اور عرصہ دراز سے کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل بنانے جیسے نکات شامل ہیں۔ اسی طرح صنعتی اداروں سے ٹھیکیداری نظام ختم کرنے اور پرائیویٹ اداروں کے مزدوروں کو لیبر قوانین کے تحت حقوق فراہم کرنے کے مطالبات بھی شامل ہیں۔ سارے محکموں میں نجکاری کے خاتمے پہ بھی زور دیا گیا ہے۔

                بارہ شب و روز کا یہ دھرنا انتہائی پرامن،اور منظم تھا۔ بہت عرصے بعد مزدور یک جہتی کا بے مثال نمونہ ہم نے دیکھا۔ وہ یوں کہ کوئٹہ میونسپلٹی کے مزدوروں نے شہر میں صفائی سے انکار کردیا۔ رکشہ یونین کے فیصلے کے مطابق دس ہزار رکشے جامد کر دیے گئے۔ لوکل ٹرانسپورٹ رک گئی۔ پریس کلبز کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ بڑی بڑی شاہراہیں بند کر کے پورا صوبہ جام کر دیا گیا اور بقیہ ملک سے رابطے منقطع کیے گئے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ سرکارنے اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اور پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی بھاری تعداد تعینات کی تھی۔

                مزدوروں کی لیڈر شپ داؤ پیچ میں بہت میچور اور موقف میں بہت واضح تھی۔ انہیں ساری بیماری کی ٹھیک ٹھیک تشخیص آتی تھی۔ انہیں جانکاری تھی کہ بلوچستان قدرتی خزانوں سے مالا مال خطہ ہے، مگر پھر بھی صوبے کے عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں اِن خزانوں کے ”استعمال“میں گڑ بڑ نظر آئی۔ وہ بالائی سطح پر بڑے پیمانے کی کرپشن کے بارے میں خوب باخبر تھے۔

                گزشتہ دو تین دہائیوں سے بورژوا پریس شور مچاتا رہا کہ مزدوروں کے یونین لیڈر بک گئے ہیں، ٹریڈ یونینیں کرپٹ ہوگئی ہیں اور سرکار نے سب کو خرید رکھا ہے۔ اس لیے اب یہاں کوئی مزدور تحریک پنپ اور چل نہیں سکتی۔ یہ بات اس قدر دوہرائی گئی اور نشر کی گئی کہ ہمارا دانشور اور ادیب بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگیا۔ اور پھر لیبر سیکریٹری کا عہدہ رکھنے والی سیاسی پارٹیاں بھی مزدوروں سے مایوس ہوگئیں۔

                اس پس منظر میں ابھرنے والی یہ غیر معمولی مزدور تحریک بہت حیرانیاں لے کر آئی۔ غریبوں کی یہ موبلائزیشن پورے صوبے میں موجود رہی۔ ہزاروں محنت کشوں کے دھرنوں کے شب و روز عجب گزرے۔ وہ جو استحصالی سرمایہ دارانہ معاشرے میں عورت کے حقوق کے لیے سرگرداں رہتے ہیں اْن کے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ بلوچستان کے مزدوروں کے اس دھرنے میں مزدورعورتیں بھی موجود رہیں۔ وہ نعرے لگا رہی تھیں، اپنے مطالبات کے پمفلٹ بانٹ رہی تھیں اور دوپٹوں پہ اپنی یونین کا بیج سجائے ہوئی تھیں۔

                حیرت کی ایک اور بات یہ بھی تھی کہ تیس چالیس سالوں سے فرقہ وارانہ قتل وغارت میں غرق اس شہر کے ”سب سے بڑے ایونٹ“ میں سب فرقوں کے لوگ موجود تھے۔ اکٹھے ایک ہی جلسہ گاہ میں۔ فرقہ واریت کا ابلیس بھگایا جاچکا تھا۔

                اسی طرح یہ وہ انوکھا موقع بھی تھا کہ جب زبان،نسل اور قومیت کے سارے فرق وامتیازات، مزدور ایکتا کے سامنے دھڑام سے گر گئے تھے۔ اب کوئی کچھ نہ تھا، ہر شخص سمپل مزدور تھا۔ بس بہت عرصے کے بعد عوامی سطح پر انسان کے بنیادی مسائل پہ بات ہو رہی تھی۔ مہنگائی نے سارے فرق مٹا دیے تھے۔ طبقاتی استحصال کے شکار لوگ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار اس قدر بڑے پیمانے پرعزم اور استقامت کے ساتھ 12دن رات تک اپنے ٹریڈ یونین حقوق کی خاطر ڈٹے رہے۔

                مہنگائی سے تنگ نچلا طبقہ بلوچستان کے دار الخلافہ کے دل میں ہلے بغیر بارہ دن اور رات تک جما رہا۔ حکمران طبقات کو للکارتا رہا۔ آئی ایم ایف کو مسترد کرتا رہا اور طبقات کے وجود سے انکاری سیاست دانوں کا منہ چڑاتا رہا۔

                اِس انتہائی ڈسپلنڈ طبقاتی جدوجہد میں سوشل میڈیا کو خوبصورتی سے استعمال کیا گیا۔ اِن کے رہنماؤں نے بہت شائستہ زبان استعمال کی۔ کوئی بلند بانگ دعوے نہ کیے، کوئی گالی گلوچ نہیں کی۔ مگر اپنے ارادوں پہ چٹان کی طرح مصمم رہے۔ مزدوروں نے کپٹلزم کے دیوالیہ پن کو ننگا کردیا، سلیکٹڈ صوبائی حکومت کا پول کھول دیا اور اقتدار کے محل کے دروبام لرزا دیے۔

                جن دوستوں کو بلوچستان کے محنت کشوں کی تحریک کے جوہر کے بارے میں جاننا ہو تو اْن کے لیے ہم یہاں وہ نکات درج کر رہے ہیں جو اِس دھرنے میں نعروں کی صورت لگتے رہے:۔

* جب تک بھوک اور ننگ رہے گی۔۔۔۔جنگ رہے گی جنگ رہے گی

* جب تک جنتا تنگ رہے گی۔۔۔۔ جنگ رہے گی جنگ رہے گی

* پیازمہنگا، تعلیم مہنگی، ٹرانسپورٹ مہنگا، روٹی مہنگی، آٹامہنگا،دوائی مہنگی۔۔۔ موت سستی۔

* مزدور اتحاد زندہ باد

* جام کرو بھئی جام کرو۔۔۔۔ جام کا پہیہ جام کرو

* ایک ہی نعرہ عام کرو۔۔۔۔جام کا پہیہ جام کرو

* حق دو حق دو جینے کا حق دو

حق دو حق دو مزدوروں کو حق دو

* انقلاب زندہ باد

  ہمیں سٹیج پر سے دھرنے کے انتظامات پر مشتمل ہدایات کے الفاظ بہت پسند آئے: ”ساتھی اور قریب آجائیں“،”دوستوں سے گزارش ہے کہ بیٹھ جائیں“، ”ساتھیو، نعروں کا زور سے جواب دو“۔ ساتھی اور دوست کتنے پیارے الفاظ ہیں۔ برابری کے، اشتراک کے، وابستگی کے، ہم بستگی کے۔

                اِس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ بہت عرصے بعد نچلے طبقے کا اتحاد سامنے آگیا۔ نچلا طبقہ اپنے استحصال سے آگاہ ہے، اس استحصال کو  روکنے کی تیاری اور جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اْس نے ثابت کیا ہے کہ طبقاتی جدوجہد فرمائشی کام نہیں ہوتا۔ طبقاتی مسائل ہی طبقاتی جدوجہدکو ابھارتے ہیں۔ طبقاتی تنظیم، شعور اور اتحاد ہی طبقاتی جدوجہد کو ابھارتے ہیں۔

  اس ابھارنے یہ بھی ثابت کیا کہ کلاس سٹرگل مزدور لیڈر شپ کو کرپٹ کرپٹ کہنے، یا اْس تحریک کے ختم ہوجانے کے وِرد سے ختم بھی نہیں ہوتی۔ یہ تو بظاہرno where سے شروع ہوجاتی ہے اور کسی nobodyکی قیادت میں بھی ابھرتی ہے۔

                اس دھرنے نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ دانشور کو مزدور تحریک کو باشعور کیے رکھنے، اسے منظم کرتے رہنے اور ایک اچھی قیادت مہیا کرتے رہنے کے اپنے فرض کا احسا س کرنا چاہیے۔ اسے نچلے طبقے کے وجود اور اس کی قوت پہ یقین رکھتے ہوئے اس کے شعور کو بڑھاتے رہنے اور اْن کی تنظیم کاری کا اپنا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔

محنت کشوں کی جانب سے ایسے دھرنے مقامی نہیں ہوتے۔ یہ اْس بڑے اور عالمی ہار کی ایک کڑی کی چھن چھن کا پیدا کردہ وہ ارتعاش ہوتا ہے۔ جو خود بھی آس پاس مزدور تحریک کی کسی جنبش سے پیدا ہوا تھا۔ اور اِس نے دوسری جگہوں میں بے چینی میں مبتلا ورکنگ کلاس پہ بھی اثر ڈالنا ہوتا ہے۔

حوالہ جات

۔1۔             علی زئی، محمد یعقوب۔ قاضی داد محمداور ایک عدالتی فیصلہ۔ ماہنامہ سنگت کوئٹہ۔ نومبر               1933۔صفحہ 17

۔2۔             کوثر، انعام الحق، مکاتیب یوسف عزیز مگسی۔ صفحہ نمبر 75

۔3۔             خدائیداد، ڈاکٹر۔ بلوچستان میں محنت کش تحریک کا آغاز۔ماہنامہ نوکیں دور جون 1944۔صفحہ 22

۔4۔             رند، عظمت خان۔ قاضی داد محمد۔ ماہنامہ سنگت کوئٹہ، فروری 2000۔صفحہ 36

۔5۔             باروزئی،محمد خان۔ قاضی داد محمد علی زئی۔ماہنامہ سنگت کوئٹہ، مارچ 2000صفحہ 47

۔6۔             کوثر، انعام الحق، بلوچستان میں اردو ۔صفحہ 240

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *