Home » قصہ » دائرہ ۔۔۔ جاوید صدیقی

دائرہ ۔۔۔ جاوید صدیقی

پتہ نہیں کب یہ بات میرے ذہن میں آئی تھی کہ ہم سب دائروں میں رہتے ہیں۔یہ دنیا ایک دائرہ ہے جس کے اندر اور بہت سے دائرے ہیں۔سماج کا دائرہ، سیاست کا دائرہ، مذہب کا دائرہ،رشتوں کا دائرہ،یہ ساری زندگی ہی ایک دائرہ ہے۔ زندگی کادائرہ یا گھیرا یا حلقہ یا حصار ہما را بنایا ہوا نہیں ہوتا یہ خود بخود بن جاتا ہے،شاید اس وقت جب ہم پہلی سانس لیتے ہیں، جب ہماری پہلی آواز نکلتی ہے، کوئی ان دیکھی چیز ہمارا احاطہ کر لیتی ہے، ہمارے چاروں طرف ایک حلقہ بنا دیتی ہے جو گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ کبھی وقت،کبھی حالات اور کبھی ہم خود اس آکار کو گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں جسے میں زندگی کا دائرہ کہہ رہا ہوں۔ ساٹھ برس ہو چکے ہیں اورمیں بار بار کوشش کرچکا ہوں کہ اس دائرے سے باہر نکل کر اندر کی طرف دیکھوں جیسے خلا باز کسی خلائی اسٹیشن پر بیٹھ کر زمین کو دیکھتے ہیں مگر نئے منظر کی تلاش بار بار نا کام ہو جاتی ہے اور پرانے منظر ہی دکھائی دیتے ہیں۔

بچہ تھا تواپنی چھوٹی سی دنیا کو کتنا بڑا سمجھتا تھا۔راستے لمبے معلوم ہوتے تھے، پیڑ اونچے لگتے تھے اور تالاب سمندر دکھائی دیتے تھے۔ وہ میدان جہاں میں کھیلتا تھا اورجس کے کونوں میں کسی عمارت کی بنیادوں کے پتھر دکھائی دیتے تھے جو نہ جانے کس وجہ سے اپنی دیواروں کو اٹھتے نہ دیکھ سکی،شاید وقت نے مہلت نہ دی ہویا شاید حالات سے اجازت نہ ملی ہو۔ اس میدان کے بیچ سے ایک پتلی پگڈنڈی گزرتی تھی یہ ان لوگوں کے پیروں نے بنائی تھی جو بڑی سڑک سے چھوٹی سڑک پر آنے کے لیے لمبا رستہ طے نہیں کرتے تھے بلکہ کھنڈر کے بیچ میں سے نکل جاتے تھے۔ اس پگڈنڈی کے علاوہ جو کسی بیوہ کی مانگ کی طرح سوکھی بے رونق اور ویران نظر آتی تھی، باقی سارا میدان ہری گھاس سے بھرا ہوا تھا جس پر ہم سب اُس وقت تک کھیلتے تھے جب تک گھر سے کوئی بلانے نہ آتا یا کوئی بزرگ شور غل سے تنگ آکر بھگا نہ دیتا۔ ایسے بزرگ عام طور پر اس مسجد سے بر آمد ہوا کرتے تھے جو سڑک پار پیپل کے گھنیرے سناٹے میں چپ چاپ کھڑی ہم لوگوں کی شرارتیں دیکھتی رہتی تھی۔ اس مسجد کو ہم سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ہم اکثر کیچڑ میں لتھڑے پیرلیے مسجد میں گھس جاتے،نل کھول کر ہاتھ منھ دھوتے،پانی اڑاتے اور گلابی اینٹوں والے صحن میں اپنے ننگے پیروں کے نشان چھوڑ کر فرار ہو جاتے۔ میدان کے اس کونے پر جہاں سے چھوٹی سڑک شروع ہوتی تھی یو کلپٹس کے دو پیڑ سر جوڑ ے کھڑے رہتے تھے۔ پتہ نہیں وہ پیڑ وہاں کیوں تھے۔ ہمارے تو کسی کام کے بھی نہیں تھے،ان میں کوئی پھل تو آتا ہی نہیں تھا۔ اتنے لمبے اور سپاٹ تھے کہ چڑھنے اور کودنے کے کام بھی نہیں آ سکتے تھے۔ بس کبھی ان کی ہری پتّیاں ہاتھوں میں مل کر سونگھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔

یو کلپٹس کی خوشبو بڑی تیز ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں بار بار سونگھنے سے پرانا زکام بھی چلا جاتا ہے۔مجھے ان پیڑوں کی ایک حرکت پر ہمیشہ حیرت ہوتی تھی، وہ ہر سال اپنی چھال بدل دیا کرتے تھے۔ پرانی گندی میلی اور کھردری چھال ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جاتی اور اندر سے سفید چکنا پیڑ چمکنے لگتا۔ ایک دن میں نے اپنی ماں سے پوچھا تھا

”باقی پیڑ تو ایسا نہیں کرتے پھر یو کلپٹس کی چھال کیوں بدلتی ہے؟“

اماں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی

”اپنے ابّو سے پوچھنا۔انھیں معلوم ہو گا۔!“

مگر ابّو کو بھی نہیں معلوم تھا۔انھوں نے کہا

”ہاں کچھ پیڑ اور کچھ کیڑے اپنی کھال بدلتے ہیں جب تم بڑے ہوگے اور سائنس پڑھوگے تو معلوم ہو جائے گا۔!“

فٹ بال کھیلتے وقت وہ دونوں پیڑ ایک طرف کے گول پوسٹ بن جاتے تھے۔ زندگی بڑی دلچسپ تھی،فٹبال کے کھیل کی طرح جس میں وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ شام کب آئی اندھیرا کب ہوا۔ رات کی موجودگی کا احساس بھی تب ہوتا جب خوابوں کی رنگین کتابیں کھل جاتیں اوران کے ورق اس وقت تک اڑتے رہتے جب تک لال،ہرے اورنیلے کانچ والی کھڑکی سے دھوپ اندر آجاتی اور چہرے پر رنگ بکھرنے لگتے۔

کبھی کبھی ایسا لگتا تھا جیسے دن رات کا ایک دائرہ بن گیا ہے۔ ناشتہ، سکول،ہوم ورک،کھیل،خواب کا ایک دلچسپ دائرہ جس کے اندر میں سکنڈ کی سوئی کی طرح گول گول گھوم رہا ہوں۔ پھر یہ دائرہ بڑا ہوا،کالج،ہوسٹل،نئے دوست،نئے شوق۔ میرا جو روم پارٹنر تھا وہ شاعری کرتا تھا، اس کے سرہانے چھوٹی سی لکڑی کی میز پر درجنوں کتابیں ڈھیر کی شکل میں پڑی رہتی تھیں۔ ان میں زیادہ تر پرانے شاعروں کے دیوان تھے، نئے شاعروں میں فیض کا نقش فریادی اور مجاز کے آہنگ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اس نے اپنا تخلص ساز رکھا تھا۔ میں اکثر کہتا:

’’ارے یار یہ کوئی تخلص ہے۔ ساز کو بجانے کے لیے ہمیشہ کسی دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے،تمہیں کون بجائے گا؟“

وہ زور سے ہنستا

”تم ہونا۔ تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہئ مضراب ہے ساز۔!“

ویسے ساز کے شعر برے نہیں ہوتے تھے۔ترنم بھی اچھا تھا۔ کبھی کبھی بہت سے لڑکے جمع ہو جاتے اور ساز سے اتنی غزلیں سنتے کہ بے چارے کا گلا بیٹھ جاتا۔ زیادہ تر کلام دوسروں کا ہوتا تھا۔ اس کی غزلیں کوئی نہیں سنتا تھا اور وہ بے چارہ شکایت کرتا ہی رہ جاتا۔ ہمارے گروپ میں ایک نریندر جوہری بھی تھا اس کا باپ سنار تھا اس لیے سب سے زیادہ پیسے اسی کے پاس رہتے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ کنجوس نہیں تھا۔ دوستوں پر خوب خرچ کرتا، بس ایک کمزوری تھی کہ اسے اپنی تعریف سننا بہت پسند تھا اور یہ کمزوری کس میں نہیں ہوتی، ا س لیے ہم اس کی صورت شکل کی دل کھول کر تعریف کرتے،خاص طور سے اس کے بالوں کی، جن کی ایک لٹ ماتھے پر پڑی رہتی تھی۔ اختر لمبو نے جو نریندر کا روم پارٹنر تھا بتایا تھا کہ نریندر اس ایک لٹ کو ماتھے پر ڈالنے کے لیے ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔ ایک اور لڑکا تھا ٹھاکر اندر جیت سنگھ جس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ کالج کی ہر خوبصورت لڑکی کی ہسٹری جاگرفی بلکہ براکا نمبر تک جانتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ لڑکیوں کا بایو ڈاٹا حفظ کر کے آیا ہو، اس لیے یاروں نے اس کا نام حافظ اندر جیت رکھ دیا تھا۔ حافظ جی سے ہماری باتیں ہمیشہ سرگوشیوں میں ہوتی تھیں اور وہ ایسی ایسی باتیں بتاتا تھا کہ دسمبر میں بھی پسینہ آنے لگتاتھا۔

میرے دوستوں کا حلقہ اتنا بڑا تھا کہ آج انھیں یاد کرتا ہوں تو سیکڑوں مسکراتے چہرے ذہن کی کھلتی اور بند ہوتی کھڑکیوں میں سے جھانکنے لگتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ چہرے اور نام ایک ساتھ یاد نہیں آتے، کبھی صورت ہے تو نام ذہن میں نہیں آتا اور کبھی نام ہے توکوئی تصویر نہیں اُبھرتی۔یہ حلقہ اور بھی بڑا ہو گیا جب میں تعلیم مکمل کر کے بمبئی آگیا۔ نیا شہر،نئے لوگ،نئے تعلقات۔شروع شروع میں تو بڑی تکلیف ہوئی،نا آشناؤں کی بستی میں دن سے رات کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔چاروں طرف اجنبی چہرے تھے مگر دھیرے دھیرے اجنبیت کی دھند چھَٹتی گئی اور دوستوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ میں جس اخبار میں کام کر رہا تھا وہ بائیں بازو کی بڑی آواز سمجھا جاتا تھا۔ مجھے کالج کے زمانے ہی سے مارکسزم سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی اور میں پروفیسر سدھیندو بنیر جی کے بہت قریب تھا جو لٹریچر پڑھاتے تھے اور کٹّر مارکسسٹ تھے۔انہی کی سفارش پر مجھے نوکری بھی ملی تھی۔ اخبار کے دفتر میں آنے والوں کی زیادہ تعداد ان کامریڈوں کی تھی جو غریبوں اور مزدوروں کے لیے الگ الگ مورچوں پر کام کر تے تھے،مل مزدور یو نین، کامگار یونین،ٹیکسی مین ایسو سی ا یشن،ریل کرمچاری سنگ اور نہ جانے کیا کیا۔اور ان سب کے تار کمیونسٹ پارٹی سے جڑے ہوئے تھے۔بظاہر پارٹی آفس میں میرا کوئی کام نہیں تھا مگر جاؤ تو ہزار کام نکل آتے تھے۔اور کامریڈ بخشی تو جیسے میرا راستہ ہی دیکھتے ہوتے تھے۔ میں پہونچاکہ ان کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دیتی اور وہ کوئی کام بتا دیتے۔

”ارے بہت اچھا ہوا کامریڈ جو تم آگئے۔ مدن پورہ کی لمبی جال میں دو دن سے بجلی بند ہے اور الیکٹرک سپلائی کمپنی والے بار بار کہنے پر بھی نہیں آ رہے ہیں۔ ذرا جا کے پتہ تو لگاؤ کیا معاملہ ہے؟“

”بل نہیں بھرا ہو گا۔!“ میں جواب دیتا۔

”ارے نہیں بھائی وہاں کے ہنڈ لوم والے آئے تھے، کہہ رہے تھے بل بھرا ہوا ہے۔ جا کے دیکھو کامریڈ۔بیچارے غریب گرمی اور اندھیرے میں پڑے ہوئے ہیں۔!“

کامریڈ بخشی بڑے پیارے آدمی تھے، کسی کی بھی تکلیف سنتے تو ایسے پریشان ہوتے جیسے ماں اپنے بچے کو بھوکا دیکھ کر ہوتی ہے۔ ہمیشہ بہت صاف ستھرے رہا کرتے تھے۔ سر پر سلیقے سے سجے ہوئے بال،جسم پر سفید کھادی کا کرتا پاجامہ اور کالی واسکٹ۔کوئی بڑی ڈگری نہیں تھی مگر بولتے بہت اچھا تھے۔ لفظوں کا دھارا ایسا بہتا تھا کہ اچھے اچھوں کے پاؤں اکھڑ جاتے تھے۔ مجھے وہ اس لیے بھی اچھے لگتے تھے کہ وہ کتابی سوشلسٹ نہیں تھے،عملی آدمی تھے۔ آج بھی کوئی مجھ سے پوچھے کہ سچّا سوشلسٹ کیسا ہوتا ہے تو میں کہوں کامریڈ بخشی جیسا۔!

مجھے خوشی ہے کہ میرا اور ان کا ایک رشتہ بھی ہے۔ یہ رشتہ کیسے بنا اس کی ایک کہانی ہے۔ سن رائز ملز میں بوائلر پھٹنے سے دو آدمیوں کی موت ہوگئی تھی اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔ اس حادثے کو دس دن گزر چکے تھے مگر سن رائز ملز کا مالک مزدوروں کو معاوضہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا بلکہ الٹا الزام لگا رہا تھا کہ بوائلر پھٹنے کی ساری ذمہ داری مل ورکرز کی ہے جنھوں نے بوائلر کا پریشر چیک نہیں کیا۔ جبکہ کام کرنے والوں کا کہنا تھا کہ بوائلر بہت دنوں سے خراب تھا اور اس کی شکایت منیج منٹ کو کی جا چکی تھی مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا۔ چنانچہ مل مزدور یونین نے مل کے گیٹ پر دھرنا دے دیا۔ سیکڑوں ورکر نہایت خاموشی سے گیٹ کے سامنے کھلی جگہ میں اور سڑک پر بیٹھے تھے ان کے پیچھے پولیس کھڑی تھی۔ میں اور کامریڈ بخشی ایک میمورنڈم بنارہے تھے جو مل مالک کو دیا جانا تھا۔ اچانک ہمارے پیچھے سڑک پر ہنگامہ شروع ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ مزدور مل مالک کی گاڑی کو اندر آنے سے روک رہے ہیں اور پولیس انھیں دھکّے دے رہی ہے۔ کامریڈ بخشی اور بہت سے دوسرے ساتھی دوڑے کہ مزدوروں کو روکیں تب تک پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ مزدوروں میں بھگڈر مچ گئی۔ کچھ مزدور زخمی ہو کر گرگئے، میں ایک بوڑھے مزدور کو سنبھال رہا تھا کہ میں نے دیکھا پولیس والوں نے کامریڈ بخشی کو گھیر لیا ہے اور ان پر لاٹھیاں برس رہی ہیں۔ ایک لاٹھی ان کے سر پر پڑی وہ چکرا کے گرے اور بے ہوش ہو گئے۔ میں نے انھیں اٹھا یا اور بڑی مشکل سے سڑک کے کنارے گھسیٹا، ان کے سر اورکان سے خون بہہ رہا تھا اور سفید کپڑے پارٹی کا پرچم بنتے جا رہے تھے۔ اب یاد نہیں کہ اس ہڑ بونگ میں کس نے کیا کیا، بس اتنا یاد ہے کہ کسی ٹیمپو والے نے کئی زخمیوں کو اٹھا کر اسپتال پہونچایا تھا۔ کامریڈ بخشی کو فوراً آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور مجھے ایک دوسرے ڈاکٹر کے حوالے کر دیا گیا کیونکہ لاٹھی کے وار سے میرا کندھا سوجھ گیا تھا اور ہاتھ ہلانے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر نے انجکشن دیا اور کہا

”تھوڑی دیر لیٹ جاؤ۔ درد کم ہو جائے گا۔!“

انجکشن شاید نیند کا تھا۔ میں لیٹا تو کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ جب آنکھ کھلی تو شام کے پانچ بجے تھے۔ میں اچھل کے بیٹھ گیا۔ پتہ نہیں بخشی صاحب کیسے ہوں گے مگر وہ ٹھیک تھے۔ ایم آرآئی کی رپورٹ بھی ٹھیک تھی، میں ان کے وارڈ میں گیا تو وہ اپنی فیملی سے باتیں کر رہے تھے۔ میں تائی چیرا کو جانتا تھا۔پہلے کئی بار مل بھی چکا تھا مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ کامریڈ بخشی کی دو جوان بیٹیاں بھی ہیں۔ سیما اورزویا۔بہت خون بہہ جانے کی وجہ سے کامریڈ بخشی کمزور لگ رہے تھے مگرباتیں کر رہے تھے،انھیں خود سے زیادہ مزدوروں کی فکر تھی، وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ مل مزدوروں کی مانگ پوری ہوئی یا نہیں؟۔وہ ان لیڈروں میں سے تھے جو خود گر جاتے ہیں مگر اصولوں کے پرچم کو نہیں گرنے دیتے۔ تائی چترا نے انھیں ڈانٹ کر چپ کرایا اور مجھ سے میرے کندھے کا حال پوچھنے لگیں جو SLINGمیں لٹکا ہواتھا۔ وہ سیما سے میری پہلی ملاقات تھی۔ تائی چترا کا خیال تھا کہ پولیس کی بے رحم لاٹھیوں کے بیچ سے کامریڈ بخشی کو نکال کر لے آنا میرا بہت بڑا کارنامہ بلکہ احسان تھا۔ جب کہ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ جو کچھ بھی میں نے کیا وہ میرا فرض تھا۔ آخر کامریڈ بخشی نے بحث کو ختم کیا۔بہت دھیرے سے اپنا ہاتھ بلند کیا اور ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولے

”ہم سب اپنا اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔ میں نے جو کیا وہ میرا فرض تھا۔ پولیس نے جو کیا وہ اس کا فرض تھا اور انھوں نے جو کچھ کیا وہ ان کافرض تھا۔ اور کوئی فرض بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا۔!“

ان تمام باتوں کے بیچ،میں دونوں لڑکیوں کو دیکھتا رہا۔ دونوں بالکل مختلف تھیں۔ زویا صرف سنتی رہی اس نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا مگر سیما کئی بار بولی اور ایک بار تو غصّے میں کھڑی ہو گئی۔ مگر تائی چترا نے چپ کرا دیا۔

”کیا کر رہی ہو؟ یہ اسپتال ہے۔چپ بیٹھو۔!“

میں دیر تک سیما کو دیکھتا رہا۔ ایسی لڑکیاں جواپنی بات بولنے کے لیے آواز اونچی کر سکیں ذرا کم ہی ہوتی ہیں۔مجھے سیما بہت اچھی لگی۔!اس حادثے کے بعد کامریڈ بخشی کے گھر میں آناجانا بڑھ گیا اور تائی چترا مجھے دیکھ کر اس طرح خوش ہوتی تھیں جیسے کوئی بیٹا یا بھائی گھر آگیا ہو۔ اور کامریڈ بخشی تو بار بار کہا کرتے تھے۔

”ارے بھائی تم اکیلے آدمی ہو۔ کھانا یہیں کھا لیا کرو۔ جہاں چار کا پکتا ہے پانچ کا پک جائے گا۔!“

عجیب محبتیں ہوتی تھیں اس زمانے کی، پاکیزہ،خالص، کوئی کھوٹ نہیں،کوئی ملاوٹ نہیں۔ پتہ نہیں کیا ملتا تھا ان لوگوں کو جو ایسی بے لوث محبت کیا کرتے تھے۔شاید ذہنی سکون، شاید روحانی مسرت۔!

اس وقت مجھے سیما میں وہ تمام خوبیاں دکھائی دیتی تھیں جو ایک اچھی ساتھی کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے ایک دن میں نے پوچھا

”مجھ سے شادی کروگی؟“

اس نے بڑی حیرت سے مجھے دیکھا۔دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر بولی

”بابا سے پوچھیے۔!“

کچھ دن بعد جب کامریڈ بخشی پارٹی آفس میں اکیلے تھے۔ میں نے کہا

”کامریڈ مجھے آ پ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔!“

انھوں نے پڑھنے کا چشمہ اُتار کے نیچے رکھا اور کہا

”بولو۔!“

میں نے کامریڈ کو اپنے خاندانی حالات بتائے حالاں کہ وہ جانتے تھے پھر بھی بتانا ضروری تھا۔ اپنی تعلیم،آمدنی اور ارادوں کے بارے میں بتایا اور پوچھا

”کیا آپ مجھ جیسے آدمی کے ساتھ سیما کی شادی کرنا پسند کریں گے؟“

کامریڈ ایک پل کے لیے حیران ہوئے پھر ہنس کر بولے

”بھئی یہ بات تو تمہیں سیما سے پوچھنی چاہیے۔!“

”اس کا کہنا ہے“”بابا سے پوچھیے۔!“

”بھئی مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چترا کو بھی نہیں ہوگا۔ وہ تمہیں بہت پسند کرتی ہے مگر پھر بھی ایک بار سوچ لو کامریڈ۔پسند کرنا،شادی کرنا اور نبھانا،تینوں الگ الگ منزلیں ہیں اور ہر منزل امتحان لیتی ہے۔!“

کچھ دن بعد ایک سادہ سی تقریب میں ہماری شادی ہوگئی۔ اور تب مجھے احساس ہوا کہ میری زندگی کے اس عظیم دائرے میں جس میں اخبار ہے،پارٹی ہے،ٹریڈ یونین ہے،مزدورہیں،مظاہرے ہیں اور سرمایہ داری سے ایک مستقل جنگ ہے۔ ایک چھوٹا سا دائرہ اور بھی ہے میری ذاتی خوشیوں،خوابوں اور امیدوں کا دائرہ جسے سیما کی موجودگی نے اور زیادہ خوبصورت بنا دیا ہے۔ شاید یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو اپنے انفرادی وجود کا احساس ہو تا ہے۔ وقت کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ بہت خاموشی سے گزرتا ہے،نہ کوئی آہٹ،نہ آوازنہ چاپ نہ باز گشت۔!

معلوم ہی نہیں ہوا کہ سات برس کب گزر گئے اور جو معلوم ہوا وہ نہ معلوم ہو تا تو اچھا تھا۔ سیما کا وہ روپ جو میں نے اپنے آئینے میں دیکھا تھا اس کا اصلی روپ نہیں تھا۔ کامریڈ بخشی کے گھر میں جو ہنستی مسکراتی زندگی سے بھر پور لڑکی ملی تھی شایدوہ کوئی اور تھی۔ میں اپنے ذہن پر بہت زور ڈالتا، طرح طرح کی دلیلیں دیتا مگر دل نہیں مانتا تھا کہ سیما ان تمام اعلیٰ قدروں کامذاق اڑا سکتی ہے جن کے لیے کامریڈ بخشی اور تائی چترا نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ وہ دن میرے ذہن میں ایک زخم کی طرح ہمیشہ تازہ رہے گا جب بھاسکر راؤ ملنے آیا تھا۔ وہ ٹیکسی مِن یونین کا سر گرم کارکن تھا۔ ٹیکس چلاتا تھا اور ہمیشہ خاکی یونی فارم پہنتا تھا حالانکہ وہ مکینیکل انجینئر تھا مگر جب نوکری دینے والے سرکاری افسر نے رشوت مانگی تو بھاسکر لڑپڑا اور نتیجے میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔الزام لگا کہ اس نے ایک ذمہ دار افسر کو رشوت دینے کی کوشش کی تھی۔ ثبوت کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا گیا۔مگر بھاسکر نے اس افسر کو نہیں چھوڑا، وہ اس کے دفتر میں گیا اپنی ڈگری کو ماچس دکھائی اور جلتا ہوا کاغذ افسر کی میز پر چھوڑ کر نکل گیا اور ٹیکسی چلانے لگا۔ میں اس کی بہت عزت کرتا تھا اور وہ تھا بھی عزت کے قابل مگر سیما نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایسا تھا کہ مجھے شرم آگئی۔اس نے بھاسکر کے سلام کے جواب میں ذرا سا سر ہلایااور اندر چلی گئی۔ اس کو پانی سٹیل کے پرانے گلاس میں دیا گیا اور چائے ایک ایسی پیالی میں آئی جس کاکنارا ٹوٹا ہوا تھا۔ بھاسکر نے ان باتوں کی طرف دھیان بھی نہیں دیا مگر میں اندر ہی اندر سلگتا رہا اور اس کے جانے کے بعد جب میں نے پوچھا تو اس نے ماتھے پر بل ڈال کہ جواب دیا

”تو کیا ایک ٹیکسی ڈرائیور کو وہ گلاس دیتی جس میں ہم خود پانی پیتے ہیں؟“

میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ اس آدمی کی بیٹی ہے جس نے کبھی چھوٹے بڑے،امیر غریب میں فرق نہیں کیا اور یہ سب کچھ اس آدمی کے گھر میں ہو رہا ہے جو ہر روز اپنے اخبار میں سماجی برابری پرکالم کالے کرتا ہے۔

دوسرا حادثہ اس سے بھی زیادہ افسوسناک تھا۔ سیما نے گھر کی پرانی نوکرانی کو جو اپنے بیٹے کی بد معاشیوں کی فریاد لے کر میرے پاس آئی تھی۔ کرسی پر بیٹھنے سے روک دیا۔

”وہاں کہاں بیٹھ رہی ہو۔ نیچے بیٹھو۔!“

بڑھیا نے ایک نظر سیما کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں تو ہین کا جو درد تھا وہ سرخی بن کر اُبھر آیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کہا

”تم انسانوں کو انسا ن نہیں سمجھتی ہو کیا؟“

”یہ کتابی باتیں رہنے دیجیے۔ نوکروں کو سر پر نہیں بٹھایا جاتا۔!“

مجھے اس کے جواب پر جتنی حیرت تھی اس سے زیادہ حیرت اس کی آواز پر تھی جو میری آواز سے کہیں زیادہ اونچی تھی۔!

”تم ٹھیک نہیں کر رہی ہو سیما۔!“ میں نے کہا

وہ جاتے جاتے پلٹی اور بولی

”آپ اپنا کام دیکھیے۔ گھر کیسے چلا نا ہے وہ مجھے معلوم ہے۔!“

میرا خیال ہے وہ حکم چلانے کو گھر چلانا سمجھتی تھی اور اس کے حکم کو نہ ماننے کا مطلب تھا جھگڑا۔ جو کئی کئی دن تک چلتا رہتا تھا،ایک بار اس بات پر بحث ہوگئی کہ بچّوں کے لیے کون سا سکول مناسب رہے گا۔ میں چاہتا تھا کہ میرے دونوں بیٹے ایک انگلش میڈیم سکول میں جائیں جو گھر سے قریب تھا اور وہ اس سکول کی ضد کر رہی تھی جس میں وہ خود پڑھتی تھی اور جو بہت دور تھا۔ میں جھنجلا کر پاؤں پٹکتا آفس چلا گیا،شام کو واپس آیا تو پتہ چلا کہ بچوں کا داخلہ اس کے سکول میں ہو چکاہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں انبار کی طرح بڑھتی جارہی تھیں۔ ہزاروں باتیں۔ کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ وہ جان بوجھ کر ہر وہ کا م کرتی ہے جو مجھے پسند نہیں مگر حیرت بھی ہوتی تھی کہ دو افراد اتنے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک ہی نہ ہو۔ مجھے ہلکے رنگ پسند تھے اُسے گہرے اور شوخ۔ مجھے سکون پسند تھا وہ تب تک کام ہی نہیں کر سکتی تھی جب تک ریڈیو یا ٹی وی پوری آواز میں چیخ نہ رہا ہو۔ مجھے پھیری والوں سے سامان خریدنا اور دروازے پر کھڑے ہو کر بھاؤ تاؤ کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ مگر سیما کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔اور میں اندر بیٹھا اونچی اونچی آوازیں سن کر سلگتا رہتا تھا۔ یہاں سلگنے کا لفظ کس قدر صحیح لگتا ہے وہ چیز جو جلتی رہتی ہے مگر نہ آگ دکھائی دیتی ہے اور نہ دھواں۔ میں ایک مستقل خوف میں مبتلا تھا۔ دوستوں کو گھر بلانا بند کر دیا تھا کہ کہیں ان کی بے عزّتی نہ ہو جائے اور خود اُ ن کے گھر نہیں جاتا تھاکہ اکیلے جانے پر سوال ہوتے تھے۔

میں کبھی کبھی خودسے سوال کرتا کہ اتنی بڑی غلطی کیسے کر بیٹھا۔یہ تو جوتے میں لگی چوئنگ گم بن گئی ہے۔ گم نکال نہیں سکتا اور جوتا پھینک نہیں سکتا۔ ہم دونوں کی الگ الگ دنیائیں بن گئی تھیں۔ دو دائرے دو حصار جو میں توڑ نہیں سکتا اور وہ توڑ نا نہیں چاہتی۔

یہ کیا زندگی ہے؟ میں نے سوچا۔ اور اگر یہی زندگی ہے تو اسے جینا کتنا مشکل ہے، تو پھر کیا کروں؟

کامریڈ بخشی نے میری آنکھوں میں دیکھا اور پوچھا

”پریشان لگ رہے ہو کامریڈ؟“

میں نے سر ہلایا

”جی۔!“

وہ میز پر جھک کر قریب آگئے اور آہستہ سے پوچھا

”پریشانی ذاتی ہے یا کاروباری؟“

میرا جی چاہا کہ میں اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دوں اور پوچھوں کہ آپ کی بیٹی آپ سے اتنی مختلف کیوں ہے یا وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہے۔ آپ کے گھر میں ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ آپ کے ہر ایک اصول سے نفرت کرتی ہے۔میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا،ان کی شفیق آنکھوں میں اُلجھن اور پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی شاید وہ بھی تھوڑا بہت اندازہ لگا چکے تھے کہ میرے اور سیما کے بیچ وہ رشتے نہیں ہے جو ہونے چاہیے تھے۔میں ایک ایسے آدمی کو ذہنی تکلیف پہونچانے کی ہمت نہ کرسکا جو مجھے اپنی اولاد سے زیادہ چاہتا ہے اس لیے میں نے ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔

”مالک کی بیٹی کیمبرج سے جرنلزم کی ڈگری لے کر آئی ہے اور وہ ایڈیٹوریل پالیسی بدلنا چاہتی ہے اخبار میں کام کرنا مشکل ہو رہا ہے کامریڈ۔“

انھوں نے سر ہلایا۔ ان کی آنکھوں کی الجھن کافی حد تک دور ہو چکی تھی اور مسکرا کے بولے

”جب تک کھینچ سکتے ہو کھینچو اور اس بے وقوف لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کرو اگر نہ سمجھے تو تھینک یو بول کر آگے بڑھ جانا۔!“

اب میں انھیں کیسے سمجھاتا کہ تھینک یو بول کر آگے بڑھ جانا اتنا آسان نہیں ہوتا اور اگر میں سیما کی زندگی سے نکلنے کی کوشش بھی کروں تو کیسے ممکن ہے۔ میرے بچوں کا کیا ہوگا،میرے دونوں بیٹے دو ایسی دیواریں ہیں جنھیں میں پھلانگ نہیں سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی اسی طرح چلتی رہے گی۔اور زندگی اُسی طرح چلتی رہی۔

صدیاں گزر گئیں۔

نہ جانے وہ زمین کہاں گئی جس پر خوابوں کے پھول کھلا کرتے تھے اوروہ آسمان کہاں چھپ گیا جو اُمید کی ابابیلوں سے بھرا رہتا تھا۔

دو بیڈ روم کا گھر تھا پھر بیٹوں نے مل کر برابر والا فلیٹ بھی لے لیا تو چار بیڈ روم کا ہو گیا،گھر بڑا ہوگیا مگر دوریاں بھی بڑھ گئیں ہم لوگ چوبیس گھنٹے میں دو تین بار سے زیادہ نہیں ملتے تھے وہ بھی کھانے کی میز پر۔سیما نے اپنا بیڈ روم پہلے ہی الگ کر لیا تھا ان کا خیال تھا کہ میرے خرّاٹے اور پڑھنے کے لیے رات رات بھر جلتا لیمپ ان کی نیند خراب کرتے ہیں۔ دائرہ روز بروز چھوٹا ہوتا جا رہا تھا۔

بیمار ہوا تو سیما نے کہا

”اپنا خیال رکھا کیجیے۔ اب آپ بچّے نہیں ہیں کہ کچھ بھی کھالیں اور Digestہو جائے۔!“

جبکہ اسے معلوم تھا کہ میں باہر کی کوئی چیز نہیں کھاتا ہوں۔ اور آفس میں بھی ہوتا ہوں تو چائے اور بسکٹ کے سوا کچھ نہیں لیتا۔ کھانسی کچھ اور بڑھ گئی تو بیٹے نے کہا

”رات بھر کھانستے رہتے ہیں۔لگتا ہے ٹیبلٹ کھاتے نہیں پھینک دیتے ہیں،انھیں اسپتال میں ایڈ میٹ کرا دینا چاہیے۔!“

ہسپتال کے کمرے میں ہر چیز ساکت تھی اور سکوت خود کو وقت کے آئینے میں دیکھنے کے لیے اور ہاتھوں کی مردہ لکیروں میں زندگی ڈھونڈ نے کے لیے بہت مدد گار ثابت ہو تا ہے۔ ایک دن زویا نے اس سکوت کو توڑ دیا۔

”ہیلو کامریڈ۔!“

”ہیلو زویا۔ تم کب آئیں؟“ میں نے پوچھا

وہ پی ایچ ڈی کے بعد دہلی چلی گئی تھی اور جے این یو میں پڑھاتی تھی۔

”کل آئی تھی۔پتہ چلا کہ آپ کا پتہ بدل گیاہے!“”آج کل اسپتال میں رہتے ہیں۔!“

میں ہنسا،وہ کرسی کھینچ کر پاس بیٹھ گئی اور غور سے مجھے دیکھا

”ارے آپ کے تو سارے بال سفید ہو گئے۔!“

”عمر۔!“ میں نے کہا

اس نے سر ہلایا

”عمر؟۔یا میرے چلے جانے کا غم؟“

میں کچھ پریشان ہو گیا۔ کیا یہ لڑکی کوئی ایسی بات کہنے کی کوشش کر رہی ہے جو میں نہیں جانتامگر اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دوں وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی۔ دہلی کی باتیں، جے این یو کی باتیں،کامریڈ بخشی اور تائی چترا کی باتیں پھر وہ ایک پل کو رُکی اور بولی

”سیمابچپن سے ایسی ہی ہے،ضدی، Short temperedاور اپنے سوا سب کو غلط سمجھنے والی۔!“

میں مسکرایا

”میں اکیلا نہیں ہوں غالب اور ٹا لسٹا ئی کی بیویاں بھی سیما جیسی ہی تھیں۔!“

اس نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اور بولی

”آپ ذرا جلدی میں تھے ورنہ لڑکیاں تو اور بھی تھیں جو آپ کو پسند کرتی تھیں۔!“

میں دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا تو میرا شک صحیح تھا، زویا وہ بات کہہ رہی تھی جو اس نے آج تک کبھی نہیں کہی، نہ لفظوں میں اور نہ اشاروں میں!

”تم نے وارننگ کیوں نہیں دی۔“میں نے شکایت کی”ایک اشارہ ہی کر دیتیں۔!“

وہ بہت زورسے ہنسی

”خطرے کا لال نشان تو سامنے تھا کامریڈ،مگر آپ اُسے اپنی پارٹی کا پرچم سمجھ رہے تھے۔!‘‘

میں چپ ہو گیا۔ میرے پاس بولنے کو تھا بھی کیا۔ وہ سچ بول رہی تھی،میں سچ مچ بہت جلدی میں تھا اور جلدی کے فیصلے عام طور پر غلط ہوتے ہیں۔ اس کے جانے کے بعد میں نے چاروں طرف دیکھا۔کمرے کا سناٹا کچھ اور بڑھ گیا تھا، دائرہ کچھ اور چھوٹا ہو گیا تھا۔!

مجھے اپنی بالکنی میں بیٹھ کر پڑھنا لکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ سامنے ہری گھاس کا میدان جو بنجر زمین پر بارش کا پانی جمع ہونے سے بن گیا تھا۔ فٹ بال کھیلتے بچے جن کی آوازیں بہت دور سے آتی ہوئی لگتی تھیں۔چھوٹی سی پہاڑی پر پام کے پیڑوں میں ڈوبتا ہوا سورج میں وہاں اکیلا بیٹھا چائے کے گھونٹ لیتا رہتا اور سوچتا کہ زندگی اتنی بے رنگ اور بد مزہ نہیں ہے جتنی میں سوچتا ہوں۔ مگر ایک دن نوکر نے چائے میرے کمرے ہی میں لا کر دی تو میں نے کہا

”بالکنی میں لے جا کے رکھو۔ میں آرہا ہوں۔!“

وہ ذرا سا ہچکچایا پھر بولا

”آج وہاں چھوٹے بھیّا اور بھابی کی چائے لگائی گئی ہے۔!“

”اوہ۔!“میں نے کہا ”اور میر ی کتابیں؟“

”ابھی لا کر دیتا ہوں۔!“ اس نے کہا

میں دیر تک سوچتارہا

”ٹھیک ہے۔ ٹرے بستر پررکھ دو۔“

وہی وقت تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ خود کو سمیٹ لینا چاہیے اُس کچھوے کی طرح جس کے پاس اپنی سخت کھال میں سر چھپالینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ اس لیے میں دھیرے دھیرے خود کو سمیٹتا جا رہا ہوں۔ اب میری دنیا میرا کمرہ ہے،سچ پو چھیے تو کمرہ بھی نہیں ہے،بستر کا وہ کونا ہے جس پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا ہوں،یہاں آنے والے بہت کم ہیں۔ کبھی کبھی کھڑکی سے ہوا کا کوئی جھونکا گھس آتا ہے یا وہ آوازیں جو گھر کی تمام دیواروں سے ٹکرا کر دم لینے کو میرے پاس آجاتی ہیں یا وہ نوکر لڑکا جو آکر پوچھتا ہے۔

”کھانا یہاں لاؤں یا باہر کھائیں گے؟“

اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر لوٹ جاتا ہے، اسے معلوم ہے کہ اب میں سب کے ساتھ کھانا نہیں کھاتا، پھر بھی اپنا فرض پورا کرتا ہے۔ گھر والے سمجھتے ہیں کہ میری تنہائی پسندی عمر کا تقاضا ہے۔ بوڑھا پے میں لوگ عام طورپر الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں، مجھے پروا نہیں کہ وہ کیا سمجھتے ہیں۔ میں تنہا نہیں ہوں میرے پاس میری عمر گزشتہ کی کتاب ہے، جس کے ورق سر گوشیاں کرتے رہتے ہیں۔ وہ دائرہ جسے میں اپنی دنیا سمجھتا تھا بہت چھوٹا ہو گیا ہے مگر یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے،ندی سوکھنے لگے تو تالاب بن جاتی ہے۔میرے چاروں طرف جو حصار ہے وہ کچھ اور چھوٹا ہو جائے گا، سمٹتا جائے گا، سکڑتا جائے گا اورایک دن چھوٹا ہوتے ہوتے ایک نقطہ بن جائے گا… نقطہ جس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، جو اپنی موجود گی کا احساس کرانے کے لیے ہمیشہ کسی حرف کا محتاج ہو تا ہے… محتاج نقطہ… بے آواز، بے معنی نقطہ جسے دیکھ کر کسی کوبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ نقطہ کبھی ایک دائرہ بھی تھا… ایک خوبصورت روشن اور وسیع دائرہ جو کبھی زندہ تھا۔!

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *