Home » پوھوزانت » کتاب نویسی، کتب میلے اورکتاب خوانی ۔۔۔ شاہ محمد مری

کتاب نویسی، کتب میلے اورکتاب خوانی ۔۔۔ شاہ محمد مری

(جو قوتیں آپ کے مجموعی پیداواری وسائل پر قابض ہیں، وہی قوتیں آپ کے دماغ اور زبان پر بھی قابض رہیں گی۔۔۔۔ کارل مارکس)۔

تجربات کرتے رہنے چاہییں۔ نامہِ اعمال میں تجربات کا موجود ہونا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آپ ہار ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کپٹلزم اس قدر چوکنا نظام ہے کہ اس کے خلاف ہونے والی سیاست میں تجربات چند ہی کامیاب ہوسکے ہیں، زیادہ تر تجربات ناکام ہی بنائے جاتے رہے۔

بلوچستان کے روشن خیال دانشوروں نے ایسے کئی تجربات کیے۔ ان میں سے ایک بلوچستان کے اندر کتاب کلچر کو مضبوط بنانے کا تھا۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے اس سلسلے میں شعوری طور پر بہت سالوں سے ایک مسلسل  تحریک چلائے رکھی۔اس کے تحت:

1۔ بہت عرصے تک اندرونِ بلوچستان کتاب ڈونیشن مہم چلا ئی گئی۔ کئی کئی بار دوستوں نے اپنی ذاتی لائبریری سے کتابیں اکٹھی کر کر کے بلوچستان کے اضلاع میں کتاب دوستوں کی قائم کردہ لائبریریوں کو بھیجوادیں۔ عملاً ہزاروں کتابیں جمع ہوتی رہیں۔ بلوچستان بھر کے گاؤں دیہات میں کتاب دوستوں کے ذریعے چھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم کروائی گئیں،اورانہیں کتابوں سے بھردیا گیا۔ اس سلسلے میں سنگت اکیڈمی کی اپنی چھپی ہوئی ہزاروں کتب صوبہ بھر میں   ڈونیٹ ہوئیں۔

اس کے علاوہ تقریروں تحریروں اور میٹنگوں   سمیناروں میں اس مشن کو زور شور سے چلائے رکھا گیا۔ “بک کلچر پاپولرائزیشن” کا سہ لفظی نعرہ بہت عرصے تک دوستوں کا مقبول ترین فریضہ رہا۔

اسی دوران حکومت بلوچستان کی طرف سے پبلی کیشن کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا۔ اور یہ کتابیں مفت تقسیم کی گئیں۔ یہ ساری کتابیں تو روشن فکری اور سائنسی سوچ کے تحت نہیں چھپیں۔ویسے بھی کتاب مارکیٹ میں جائیے تو بشر دوست کتابوں کے مقابلے میں آپ کو قدامت و جہالت اور ہلکے پن پہ مشتمل کتابوں کے انبار ملیں گے۔ کسی بک فیئرز میں جائیے  تو نوجوان آپ کو  اپنی پسند کردہ کتابوں کی ڈھیر کی طرف مشورہ کے لیے لے جاتے ہیں کہ وہ ان میں سے کونسی کتاب خریدلے اور کونسی نہیں۔ ان کی سلیکٹ کردہ آدھی سے زیادہ کتابیں عوام دشمن نکلیں گی۔

بورژوا سماج میں اکثریت کتابیں بورژوازی ہی کی سوچ اور مفاد لیے ہوئے ہوں گی۔ یہ تعداد میں بہت زیادہ ہوں گی، گیٹ اپ کی دیدہ زیبی کمال کی ہوگی،اور چھپائی بہت عمدہ ہوگی۔

اس صورت ِ حال میں ”کتاب کلچر پاپولرائزیشن“ کے نعرے میں کچھ نقص نظر آیا۔ تب اس کمپین کے نعرے میں تبدیلی کرنی پڑی اور اب “بک کلچر پاپولرائزیشن” کے بجائے اُسے ”گڈ بکس کلچر پاپولرائزیشن” کردیا گیا۔۔۔۔۔یہی تحریک جاری ہے۔

2۔ اسی طرح اسی ارادے پہ محنت کے نتیجے کے بطور یہاں کتاب میلے سجائے جاتے رہے اور اْن کے پہلو بہ پہلو علمی ادبی جلسے بھی منعقد کرائے جاتے رہے۔بڑھ چڑھ کر اِن سیمیناروں کتاب میلوں کے انعقاد میں اعانت کی گئی۔مگر تجربے سے گزر کر یہ اندازہ بھی ہوا کہ نچلے طبقات سے وابستہ لوگ بْک فیئر جیسے ایونٹس کو اگر سختی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں نہ رکھیں تو یہ بالآخر اوپری طبقات کے مفاد میں چلے جاتے ہیں۔ ادب و علم و آرٹ سے بے بہرہ اور لاتعلق وزیر و گزیر اْن کا افتتاح کرتا ہے۔ اِن کتاب میلوں کے اندر اْنہی کی گلیمرائزیشن ہوجاتی ہے، لنچ اور ڈنرعطا کرنے کے نتیجے میں اْن کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے۔انہی سرکاری، یا این جی اوئی،یا انفرادی دولتمند وں کی طرف سے جگمگاتے ہال، فائیو سٹار رہائش اور ہوائی سفر کی سہولیات عطا کرنے سے دانشوروں کی صفوں میں اسی طبقے کو واہ واہ کہنے کے جراثیم پروان چڑھنے لگ جاتے ہیں۔ادیب اور دانشوروں میں ان پیسہ لگانے والوں کے لیے ”با ادب“ اور ”باملاحظہ“ گیری شروع ہوجاتی ہے۔ اس قدر کہ اْس ڈونر کو دوبارہ دیکھتے ہی آرگنائزرز کے منہ میں پانی آجاتا ہے اور وہ ایک اور ادبی کانفرنس کھرا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔کامیابی بھی ملتی ہے۔

دیکھا دیکھی جنگل کی آگ کی طرح ”کتب میلے“ اور ”ادبی کانفرنسیں“ برپا ہونے لگیں۔ ہر بڑے شہر میں ایسے میلے سجنے لگے۔ڈپٹی کمشنر کی قیادت، میجر کرنل کی افتتاحیت کے نیچے میں، یا پھر وزیر، اور اعلیٰ وزیر کے ہاتھوں اختتامی سیشن کی سرپرستی سے ساری کانفرنس کا تقدس مکروہ ہوجاتا  ہے۔ چنانچہ عملی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ابھی پچھلے ہوائی سفر کا ٹیگ سوٹ کیس پہ تازہ ہے کہ نئی کانفرنس کا ہوائی ٹکٹ آیا پڑا ہوتا ہے۔فلاں شہر کے فلاں اعلیٰ ہوٹل میں کمرہ بک ہوچکا ہوتا ہے۔ چنانچہ پھر روانگی۔ ایئر پورٹ پر ہی پچھلی  کانفرنس میں پڑھے گئے اپنے مقالے کے فقرے آگے پیچھے کر کے نیا مقالہ تیار ہوجاتا ہے۔ اْس شہر پہنچتے ہی ایئرپورٹ پر استقبالی کاؤنٹر،اوروہاں مرغن چہرے بیج لگائے موجود۔یوں بہت کم عرصے میں ایک عام سا لکھاری ادبی کانفرنس ”کیچ“ کرنے کی مہارت پا لیتا ہے اور پھر چل سو چل۔ادبی کانفرنسوں کی ایسی بھرمار کہ مقالہ نگار ”آنیاں جانیاں“ کرنے کو اپنی زندگی کا ایک اہم کام گرداننے لگتا ہے۔ اچھے بھلے،عوام سے کمٹڈ،ستر ستر سال کے پروفیسروں تک کو ٹکٹ و اکیڈمی و ہوٹل وصدارت کی لت پڑ جاتی ہے۔ بندہ بالائی طبقات کا ایسا پالتو بن جاتا ہے جسے بلوچی میں ”لْوسی“کہتے ہیں۔

رفتہ رفتہ اِن سمیناروں جلسوں بک فیئروں کے فنانسزر،آگنائزر، سپیکرز حتی کہ سامعین بھی سپانسر شدہ بن جاتے ہیں۔ اور یہ سب لوگ بورژواذہنیت کے امیروں کے عادی خدمت گزار دانشوروں کی صفوں میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ اتنا زیادہ نمک کھاتے ہیں کہ نمک حلالی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔

تب یہ نتیجہ نکلا کہ  ہر بک فیئر،اور ہر ادبی کانفرنس میں ”اپنی“ بات کہنے نہیں پہنچنا چاہیے۔ہمیں اس بکواس فقرے پہ تھوکنا چاہیے کہ ”بس دوستوں سے میل ملاقات کا بہانہ مل جاتا ہے“،بلکہ ہمیں منعقدہ کتاب میلوں، ادبی کانفرنسوں کے بارے میں تمیز کرنا ہوگا کہ کس میلے اور کانفرنس میں عوام دوستی ہے اور کہاں فقط چکا چوندی ہے۔ کہاں عوام کی بات کہنے سے تاثیر ہوسکتی ہے اور کون سے میلے میں سامعین آپ کے طبقے کے ہوتے ہی نہیں ہیں۔ یعنی ہر کتاب میلہ اور ہر ادبی علمی کانفرنس ہمارا نہیں ہوتا، ہر سپیکر عوام دوست نہیں ہوتا، اور ہر تالیاں بجانے والا سامعین آپ کا ”سامعین“نہیں ہوتا۔

3۔ اسی طرح لوگوں کو  لکھنے کی طرف مائل کرنے کی ایک مسلسل تحریک چلائی گئی۔ سماج میں سے نئے نئے لکھاری پیدا کر نے کی محنت کی گئی۔ ہمارے پاس ایک ہی رسالہ (سنگت) اور ایک ہی پبلشنگ ادارہ (سنگت اکیڈمی آف سائنسز) تھا، انہیں خوب استعمال کیا۔  کچھ نئے اور اچھے لکھاری پیدا ہوئے ۔مگرپھر یک دم اس کام میں ہیوی لی فنڈڈ ادارے کودپڑے۔ اور دھڑا دھڑ کتب چھپنے لگیں۔ عنوانات کی سلیکشن سے لے کر نفسِ مضمون تک سب کچھ تیز رفتار مگر غیر معیاری ہوتا گیا۔ چنانچہ اس بہتی رو میں   بے شمار لکھنے والے پیدا ہوگئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ تحریروں کے عنوانات سے لے کر مواد  کی سنجیدگی اور گہرائی تک سب کچھ سطحی بنتا گیا۔ طبقاتی سوال، قوموں کے حق خوداختیاری کی بات اور عورتوں کے حقوق کا معاملہ بہت پیچھے چلا گیا۔

اس ساری قلم کاری میں ایک کام اچھا ہو سکتا تھا:انٹرنیشنل لٹریچر کا ہماری مادری قومی زبانوں میں ترجمہ۔ مگر وہ بھی ایک اور گھپلے کا شکار ہوا۔ہمارے مترجمین اردو سے ترجمے کرتے ہیں، انگلش سے نہیں۔ اور مارکیٹ میں   ہر ترجمہ کردہ کتاب اردو میں پہلے سے موجود ہوتی ہے ۔  اور اردو ترجمے بلوچی کی بہ نسبت بہت زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ اس طرح اپنی زبان کو ترقی دینے اور اس میں زیادہ ریڈر شپ پیدا کرنے کی آرزو نامکمل رہ جاتی ہے۔

لکھاریوں میں نعرے بازی، اور پاپولر موضوعات پہ جلدی جلدی کچھ لکھ مارنے کی بیماری سی پھیل گئی۔

الغرض بلوچستان میں اب اتنی زیادہ تعداد میں،مگر اتنی سطحی کتابیں چھپ رہی ہیں کہ ان کے لیے قارئین ملنے مشکل ہوگئے۔پبلشنگ اداروں کے بڑے بڑے سٹورز چھلک جاتے ہیں۔ اْن کے لیے کتاب کی نکاسی ایک عذاب بن چکی ہے۔ اس فاضل پیداوار کی سمندر بردگی مشکل ہے کہ سمندر کوئٹہ سے بہت دور ہے۔ ردی میں بھی آپ کتنی کتابیں فروخت کر پائیں گے۔۔۔ لہذا اوور پڑوڈکشن کرائسز!!

تب اندازہ ہوا کہ ہمیں کتاب نویسی، کتاب پاپولرائزیشن اور کتاب پبلشنگ تینوں شعبوں میں عوامی جھونپڑی الگ رکھنی پڑے گی۔

ایسے نئے  لکھاری پیدا کرنے کی جدوجہد جاری رہے جو دیر پا اثر رکھنے والے موضوعات چنیں، اور جن کا نفسِ مضمون سنجیدہ، انسان دوست اور باریک بین ہو۔ ”تصنیف برائے اشاعت“کے بڑھتے ہوئے رجحان میں بہہ جانے کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ ہمیں سونگھنے کے قابل ہونا چاہیے کہ بلوچستان میں کتاب خوانی کی خوبصورت عادت کو روکنا نا ممکن دیکھ کر طے کیا گیا ہوگا کہ قاری کو کتابیں   انبار کی صورت  میں میسر کی جائیں۔ مگر ایسی کتابیں جو ٹریش ہوں، مواد سے خالی ہوں، انتہائی سطحی ہوں،اور فکری اور نظریاتی مواد سے یکسر خالی ہوں۔ یہی ٹریش کتابیں اب ہمارے سماج کو کھا جائیں گی۔ نوجوانوں کا ذوق گر جائے گا، موضوع اور مواد کا معیار برباد ہوجائے گا، اور سنجیدگی، محنت اور نظریہ نایاب ہوتا جائے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *